کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 7
اُصولی رجحان ہی عورت کے لئے خصوصی استحقاق اور مردوں کے خلاف امتیاز پر مبنی ہے جیسا کہ حدود پر اپنے کتابچہ کے آغاز میں ہی اُصولی بنیاد کے طورپر جسٹس (ر) جاوید اقبال لکھتے ہیں : ’’یہ حقیقت قانوناً تسلیم کرلی گئی کہ برصغیر کی عورت چونکہ پس ماندہ اور مظلوم ہے، اس لئے ضابطہ فوجداری کے ہر جنسی جرم میں جس میں عورت ملوث ہو، عورت کو ملزم تصور نہ کیا جائے۔ لہٰذا اغوا، زنا بالجبر، کسی کی بیوی کو ورغلا کراپنے ساتھ بھگا لے جانا وغیرہ، ایسے جرائم کی پولیس رپورٹ میں عورت کا سٹیٹس مستغیثہ یا مظلوم کا ہوتا ہے، نہ کہ ساتھی ملزم کا۔ خواہ ایسے کسی جرم میں اس کی رضامندی شامل ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ (کتابچہ: ’زنا آرڈیننس کا تنقیدی جائزہ‘، ص ۲ شائع کردہ : عورت فاؤنڈیشن) دراصل یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ عورت لازماً معصوم ہی ہوتی ہے اور مرد ہمیشہ اس پر جارح ہوتا ہے جبکہ یہ تصور ہی صنفی امتیاز پر مبنی ہے۔ اسلام کی رو سے جس طرح عزت وعصمت کا تصور عورتوں کے ساتھ وابستہ ہے، ویسے ہی مردوں کے لئے بھی یہی تصور موجود ہے، وگرنہ اسلام میں مردوں پر تہمت لگانے کی سزا کیوں مقرر کی گئی ہے… ؟ قانون کو فریقین کے تحفظ اور دونوں صنفوں کے ساتھ عدل وانصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا چاہئے۔ جدید تحریک ِنسواں کے نعروں کے بعد یہ عجیب رجحان پیدا ہوگیا ہے کہ قانون ہمیشہ عورت کو ہی مظلوم خیال کرتا ہے۔ اسی نوعیت کا ایک واقعہ مجھے گذشتہ دنوں دبئی میں مقیم میرے ایک قریبی عزیز نے سنایاکہ ایک عورت نے ان کے دوست کو برائی کی دعوت دی (اور یہ بات بھی عجیب نہیں جیسا کہ قرآن میں عزیز ِمصر کی بیوی کا حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں مشہور قصہ بھی موجود ہے) تو اس شخص نے قریب موجود پولیس کے ایک سپاہی کو یہ شکایت کی کہ اس عورت کے خلاف کیا کوئی قانون حرکت میں نہیں آتا؟ وہ سپاہی بولاکہ قانون تو ضرورحرکت میں آتا ہے مگر اس وقت جب یہ شکایت تمہاری جگہ وہ عورت کرتی۔٭ اس سے پتہ چلتا ہے کہ صنفی امتیاز حدود قوانین کی بجائے مغربی قانون کی بنیادی ساخت میں موجود ہے لیکن اس کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں کی جاتی۔ ٭ حدود قوانین میں بھی عورت کو یہ رعایت دی گئی ہے کہ قانونِ قذف کی رو سے صرف عورت ہی مرد کے خلاف تہمت لگانے کا دعویٰ کرسکتی ہے جبکہ یہ قانون مرد کوعورت کے خلاف یہ حق نہیں دیتا۔ (دیکھیں: انٹرویو امان اللہ بلوچ ایڈووکیٹ،’ حدود قوانین او راین جی اوز‘ :ص ۲۱)