کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 69
﴿وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّـهِ﴾ (الشوریٰ: ۱۰) ’’جس چیز میں تم اختلاف کرو تو وہاں فیصلہ اللہ کی طرف ہی لوٹایا جائے۔‘‘ پاکستانی قانون میں پہلے بھی بعض جگہ یہ صراحت موجود ہے ،مثلاً قصاص ودیت آرڈیننس میں ۳۳۸/ایف میں وضاحت موجود ہے کہ اس قانون میں اگرہمیں کوئی ضمنی مسئلہ درپیش ہو گا یا کوئی چیز موجود نہیں ہو گی یا کوئی نکتہ قابل اصلاح ہو گا تو قرآن وسنت کی روشنی میں اسے حل کیا جائے گا۔ ایسے ہی لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ نے اس کے مطابق ایک فیصلہ بھی دیا ہے۔فل بنچ کے تین ججوں : جسٹس سردار محمدڈوگر ،جسٹس خلیل الرحمن خان اور جسٹس خلیل الرحمن رمدے کے سامنے یہ مسئلہ پیش ہوا کہ اگر مقتول کے ورثا صلح کرکے قصاص معاف کر دیں تو کیا اس کے باوجود بھی قاتل کو کوئی تعزیری سزا دی جاسکتی ہے یا نہیں ؟ تو اُنہوں نے یہ فیصلہ دیا کہ اس صورت میں تعزیری سزا نہیں دی جانی چاہیے۔ وہ خود چونکہ مروّجہ قوانین میں کوئی ترمیم نہیں کرسکتے تھے، لہٰذا انہوں نے اپنی اس رولنگ کو پارلیمنٹ بھیجنے کی سفارش کی کہ اس کے مطابق قانون سازی کی جائے۔ چنانچہ ’’قرآن و سنت کے کسوٹی ہونے‘‘ پر مبنی ایک شق کا اگر حدود آرڈیننس میں اضافہ کر دیا جائے تو یہ کافی حد تک حدود اللہ کے قریب آ جائے گا کیونکہ اس صورت میں اصل نگران اور اتھارٹی قرآن وسنت قرار پائے گا۔ ۱۹۸۰ء میں وفاقی شرعی عدالت نے تعزیراتِ پاکستان اور قوانین ضابطہ کی ۵۶ دفعات کو قرآن و سنت کے منافی قرار دیا۔ تو سپریم کورٹ (شریعت بنچ) میں حکومت نے اپیل کردی۔ جب سپریم کورٹ نے بھی وفاقی شرعی عدالت کی تائید کردی تو ۱۹۹۱ء میں حکومت سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ وہ متبادل دفعات فراہم کرے۔ یہ بے نظیر بھٹو کا دور تھا اور حکومت اس سے بچنے کے لیے سپریم کورٹ سے تاریخوں پر تاریخیں لے رہی تھی اورحکومت کا موقف یہ تھاکہ ہمیں مختلف ممالک کے قوانین کا جائزہ لینے کے لیے اپنے نمائندے دوسرے ممالک میں بھیجنے ہیں ۔ اس صورت حال کو بھانپ کر فل بنچ نے کہا کہ دس سال تو پہلے ہو چکے ہیں اور بنچ کے سربراہ جسٹس افضل ظلہ نے کہا کہ اب ہم مزید تاریخیں نہیں دیں گے۔فلاں تاریخ تک آپ متبادل قانون