کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 68
یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ حدود آرڈیننس غیر اسلامی ہے۔ حدود کے قوانین نہ تو بعینہٖ حدود اللہ ہیں اور نہ ہی اس سے الگ کوئی چیز۔جس طرح قرآن کا ترجمہ اگرچہ قرآن نہیں ہوتا لیکن اس کا غیر بھی نہیں ہوتا، حدود آرڈیننس میں شرعی دفعات اور حدود اللہ کا باہم وہی رشتہ ہے جو کتاب کے متن اور اس کے ترجمہ وتشریح کے درمیان ہوتا ہے،کیونکہ علما نے انہیں قرآن وسنت کی روشنی میں تیار کیا ہے۔
بعض لوگ حدود آرڈیننس پر خدائی قانون نہ ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں ۔میرا سوال یہ ہے کہ ترمیم واصلاح کے بعد جو حدوو آرڈیننس سامنے آئے گا ،کیا وہ خدائی قانون ہو گا؟ کیا وہ بعینہٖ حدود اللہ ہوں گی بلکہ وہ بھی انسانی کاوش ہی قرار پائے گی۔اور اس سے بھی بہت سے اہل فکر کو اختلاف ہو سکتا ہے۔ اور یہ واضح رہے کہ حدود اللہ یا شریعت کے نفاذ Application کی جو بھی صورت ہو گی جیسے وہ پہلے سے تیار کردہ کسی معیاری تدوین کی صورت میں ہو تو انسانوں کا قرآن وسنت کا فہم ’انسانی کدوکاوش‘ ہی کہلائے گی۔اگر کسی بات کو محض یہ کہہ کر ردّ کرنا شروع کر دیا جائے کہ یہ تو انسانوں کا اجتہاد ہے یا بصورت ِ فقہ شریعت کی انسانی تعبیر ہے تو اللہ کا یہ دین بالکل معطل ہو کر رہ جائے گا۔
سوال: یہ توایک مثالی صورت حال ہے، لیکن پاکستان میں ایسے ہونا سردست ممکن نظرنہیں آتا، ان حالات میں آپ پاکستان میں شریعت کے نفاذ کا طریقہ کیا تجویز کرتے ہیں ؟
جواب: حدود اللہ اور دیگر شرعی احکام کے نفاذ کا اصل طریقہ تو یہی ہے کہ اسے وحی یعنی قرآن وسنت کی صورت میں نافذ کر دیا جائے، اسے اپنے الفاظ میں قوانین کی شکل نہ دی جائے جیسا کہ سعودی عرب اور بعض دیگر خلیجی ممالک میں یہ طریقہ اس وقت نافذ العمل ہے۔ لیکن اگر ہم اسی بات پر مصر ہیں کہ شریعت کو انسانی الفاظ اورقانونی دفعات کی شکل میں ہی نافذ کرنا ہے تو پھر اس کے اندر ایک شق یہ رکھ دی جائے کہ جہاں کہیں کو ئی اختلاف رونما ہوگا تو اس کی کسوٹی کتاب و سنت ہوگا۔جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:
﴿ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ ﴾ (النساء: ۵۹)
’’جس چیز میں تمہارا اختلاف ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو۔‘‘