کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 67
جائے۔ ہمارے ملک پاکستان میں حدود آرڈیننس سمیت شریعت کے حوالہ سے لاگو کئے جانے والے دساتیر و قوانین اینگلو سیکسن لاز کے طریقہ پر تیار اور نافذ ہوتے ہیں ۔ ان کے بارے میں یہ مسلمہ امر ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلیوں کی ضرورت محسوس ہوتی رہے گی جب کہ وحی (کتاب و سنت) دائمی عالمگیر ہدایات ہیں جو حرکی اجتہاد کے تصور سے ہر دور کے بدلتے تقاضوں کوملحوظ رکھ کر ہر طرح کے پیش آمدہ مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔
اجتہاد ی اختلافات کے باوجود اجتہاد کی شریعت میں اجازت کیوں ہے؟ اس کے بارے میں عموماً عوام ائمہ کا اختلاف سن کرپریشان ہوجاتے ہیں حالانکہ اکابر فقہا کے ظاہری اختلافات کے باوجود یہ اجتہاد کا ایک بڑا اہم اور مثبت پہلو ہے کہ اس طرح پیش آمدہ مسئلہ کے تمام پہلوؤں کا جائزہ سامنے آجاتا ہے کیونکہ اجتہاد کرنے والوں میں سے کسی کے سامنے ایک پہلو ہوتا ہے اور کسی کے سامنے کوئی دوسرا ۔ جس کی وجہ سے ان کی آرا بظاہر مختلف نظرآتی ہیں ،لیکن بہت دفعہ یہ اختلاف حقیقی نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک حقیقت کے مختلف پہلو ہوتے ہیں ۔ جیسے ایک عمارت کو جب آپ چار اطراف سے دیکھیں گے تو وہ بظاہر ایک طرف سے دوسرے پہلوسے مختلف نظرآئے گی حالانکہ وہ عمارت ایک ہی ہے،پھر زمانے کی تبدیلی کے ساتھ مسائل کی صورتوں اور نوعیتوں میں تبدیلی بھی واقع ہوتی رہتی ہے۔ جب آپ دفعہ وار قانونی دفعات بنا کر جج کو اس کا پابند بنا دیں گے اور اجتہاد کو اس کے لیے شجر ممنوعہ قرار دیں گے تو ظاہر ہے کہ اس جج کی طرف سے دیا جانے والا فیصلہ مسائل کے نت نئے پہلوؤں سے ہم آہنگ نہیں ہوگا۔ اس طرح قانون ہمیں انصاف دینے کی بجائے ہمارے لئے بیڑیاں (اِصر واَغلال) بن جائے گا۔
لیکن یہاں یہ بات واضح رہے کہ حدود آرڈیننس کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ آرڈیننس کوئی خدائی قانون نہیں ، محض ایک مغالطہ اور پراپیگنڈہ ہے۔ یہ تودرست ہے کہ یہ حدود آرڈیننس ان الفاظ کے ساتھ اللہ نے آسمان سے نازل نہیں کیا، بلکہ یہ وحی الٰہی (قرآن وسنت) کا اجتہادی فہم ہے۔ یہ بعینہٖ شریعت نہیں بلکہ شریعت کی اجتہادی تعبیر ہے، لیکن اس کا