کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 66
وسنت کے مطابق سمجھے، اسی کے مطابق فیصلہ کر دے۔کیونکہ جج کسی اور کے اجتہاد کا مقلد نہیں ہوتا بلکہ وہ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پابند ہوتا ہے اور مسئلہ پیش آنے پر ہی وہ اجتہاد کرتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے اسلاف نے مسئلہ پیش آنے سے پہلے محض مفروضوں پر رائے زنی کو نا پسند کیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ مسئلہ پیش آنے سے پہلے مفروضوں پر اجتہاد نہ کیا جائے کیونکہ مسئلہ کی صحیح نوعیت اسی وقت متعین ہوتی ہے جب وہ پیش آئے۔اس سے پہلے وہ محض ایک مفروضہ ہوتا ہے چنانچہ مفروضہ کی بنیاد پر جو فتویٰ صادر ہو گا، اس میں صحت کے امکانات کم اور افراط وتفریط کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں ۔
یہی بات میں نے اس وقت بھی کہی تھی جب ’جیو‘ نے مجھ سے حدود آرڈیننس کے خدائی قانون ہونے یا نہ ہونے کا سوال پوچھا تھا ۔ میرا جواب یہ تھا کہ اگر آپ بیرونی دباؤ کے زیراثر آرڈینینسوں میں تبدیلیاں کرکے نئی دفعہ وار قانون سازی کریں گے،بالخصوص جب قانون سازی کا اختیار بھی پارلیمنٹ کو دے دیں گے جس کے ارکان کی اکثریت شریعت سے بے بہرہ ہے توکیا اس وقت یہ آرڈیننس خدائی بن جائے گا۔ حکومت کے آئینی اداروں کو شریعت کی قانون سازی اورتعبیر شریعت کا اختیار دینے کی بجائے اس کے نفاذ Application کے کامیاب طریقوں پر محنت کرنا چاہیے۔اگر شریعت وحی کے الفاظ میں رہے گی تو پھر یقینا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب حدود اللہ کا نفاذ ہورہاہے لیکن اگر آپ پارلیمنٹ یا بیوروکریسی کی لفاظی کو قانونی دفعات کی صورت میں نافذ کریں گے تو پھر یہ اعتراضات اُٹھتے رہیں گے کہ حدود آرڈیننس قرآن وسنت کے مطابق نہیں یا قصاص و دیت آرڈیننس قرآن وست کے مطابق نہیں ۔ اس کو قرآن وسنت کے مطابق بنایا جائے یا اسے منسوخ کیا جائے۔
اورحقیقت یہ ہے کہ بیوروکریسی کی ڈرافٹنگ یا پارلیمنٹ کی قانون سازی جسے آپ اجتماعی اجتہاد کانام دے رہے ہیں ، عدلیہ پر بے اعتمادی کا اظہار ہے۔حالانکہ عدلیہ میں آنے والے لوگ میرٹ کی بنیاد پر آتے ہیں اور پارلیمنٹ میں آنے والے عوامی اعتماد کی بنیاد پر جبکہ علم کی دنیا میں میرٹ کو ہی بالادستی حاصل ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ شرعی حدود کو وحی کے قالب میں نافذ سمجھا جائے اور عدلیہ جو قرآن وسنت کے ماہرین پر مشتمل ہو، اسے اجتہاد کا اختیار دیا