کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 65
زمرہ سے نکال کر اس کے لئے کوئی اور قانون لایاجائے تاکہ زنا بالجبر کے دعویٰ سے ’جرم زنا‘ پوری طرح عورت کے ہاتھ میں آجائے۔ مزید یہ کہ اس طرح زنا بالجبر کے مرتکب کنوارے کو بھی رجم (سنگسار) کرنا پڑے گا حالانکہ درحقیقت یہ لوگ تو سرے سے ایسی سزاؤں کے ہی خلاف ہیں ۔ شریعت ِاسلامیہ میں اجماعاً کنوارے زانی کی سزا رجم نہیں ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور یا بعد کے کسی دور میں بھی ایسا نہیں ہوا۔
سوال: اسلام بلا شبہ اس ملک کی بنیاد ہے۔ یہاں اسلامی شریعت پر عمل ہونا چاہئے اور اسے ہمیشہ جاری و ساری رہنا چاہئے لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جو قوانین اسلامی شریعت کے نام پر اس وقت ملک میں نافذ ہیں ، ان میں بعض کمزوریوں کا حل کیا ہے؟
جواب:اس سوال کے پس منظر کے طور پر اُصولاً یہ حقیقت ذہن نشین رہنی چاہئے کہ قرآنِ مجید کی کوئی انسانی تشریح یا تعبیر کبھی بھی قرآن کے مماثل قرار نہیں پاسکتی۔ قرآن کے ترجمہ، تشریح اور تفسیر کو خواہ آپ اس کی بہتر سے بہترتعبیر و تشریح کی صورت میں تیار کر لیں ، اس پر کبھی ما أنزل ﷲ (نازل کردہ کتاب وسنت) کا اطلاق نہیں کیاجاسکتا،کیونکہ انسانوں کی اس تعبیر (Interpretation) میں تضاد اور تعارض کا احتمال موجود رہتاہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانوں کو مسائل پیش آنے سے پہلے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان کی نوعیت کیا ہوگی؟ ان کی نوعیت اسی وقت متعین ہوتی ہے جب وہ معاملہ درپیش ہو۔
جیسا کہ میں ذکرکر چکا ہوں کہ اس وقت مختلف اسلامی ممالک،خصوصاً سعودی عرب وغیرہ میں اسلام کے نفاذ کا یہ اندازنہیں ہے کہ پہلے شریعت کی دفعہ وار قانون بندی کی جائے اور پھر ججوں کو اس کا پابند بنا دیا جائے۔ان کے ہاں اصل اتھارٹی کتاب وسنت کو حاصل ہے اور جج اپنے فیصلہ میں انہی کا پابند ہے اور یہی ہونا بھی چاہیے کہ جج صرف وحی(قرآن وسنت) کا پابند رہے۔ البتہ جب مسئلہ پیش آئے تو اس وقت وہ اکابر اہل علم کی تشریحات اسلامی ورثہ کے قدیم اور جدید فقہی ذخیرے اور فتویٰ جات کو سامنے رکھ کر ان سے استفادہ کرے۔اس دور کے علما سے رہنمائی لے اور وہ واقعاتی صورتِ حال کا جائزہ بھی لے، پھر شرعی تعلیمات اورصورتِ واقعہ دونوں کو سامنے رکھ کر دلائل کے تناظر میں غور کرتے ہوئے جو رائے قرآن