کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 64
ایک حصہ گزرا ہے اورمجھے خوب معلوم ہے کہ ان کے پیچھے کیا عیوب پوشیدہ ہیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے دستور میں بھی اسلامی دفعات محض تصور یا پالیسی کی حد تک ہیں ۔ عمومی تصورات اور ’پالیسی قوانین‘ قانوناً مؤثر نہیں ہوتے بلکہ وہ صرف مقصد اور پالیسی ہوتی ہے جس کی کوئی مؤثر حیثیت نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں مروّج اینگلو سیکسن لاز کا اُصول یہ ہے کہ عمومی دفعات یا پالیسی کے اُصول مزید خصوصی رولز کے بغیر مؤثر نہیں ہوتے۔ عام فہم انداز میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ منصوبہ اور عمل دو مختلف چیزیں ہیں ۔ سوال: کل میری ڈاکٹر محمد فاروق خاں سے بات ہوئی، اُنہوں نے حدود آرڈیننس کی چھ بنیادی خامیاں بیان کی ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ قرآن کی رو سے زنا بالجبر میں سزا کا طریقہ زنا بالرضا سے مختلف ہے۔ زنابالجبر میں چارگواہ تو کجا،ایک عینی گواہ کی بھی شرط نہیں ہے۔ جواب: دراصل بعض لوگ زنا بالجبر کے لئے سنت کوبالائے طاق رکھ کر آیت ِمحاربہ کو سزا کی بنیاد بناتے ہیں ۔ سورۃ المائدۃ کی اس آیت کے الفاظ یہ ہیں ﴿ إنَّمَا جَزَائُ الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ ﷲَ وَرَسُوْلَہُ ﴾ (آیت:۳۳) لیکن اس آیت سے اگلی آیت بھی ملاحظہ فرمائیے : ﴿ إلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ أَنْ تَقْدِرُوْا عَلَیْہِمْ …﴾ (آیت:۳۴) ’’مگروہ لوگ جوگرفتاری سے قبل توبہ کرلیں …‘‘ گویا اگرزنا بالجبر کو اس آیت کے تحت قابل سزا قرار دیا جائے تو زنا بالجبر کی زد میں آنے والی خاتون کو بالکل نظر انداز بھی کیا جاسکتا ہے، مثلاًاگر جرم کرنے والا اپنی گرفتاری سے قبل توبہ کا اظہار کردے تو جرم ہی معاف ہوجائے گا۔ لیکن درحقیقت ہماری شریعت کی تکمیل محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر قطعاً نہیں ہوسکتی۔ قرآنِ مجید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ۲۳سالہ زندگی میں نازل ہوا اور اپنی دائمی تعبیر (حدیث وسنت) کی صورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے وابستہ ہے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی (حدیث وسنت) کو قرآن سے الگ کردیا جائے تو جو قانون نافذ ہوگا، وہ الہامی شریعت کا قانون نہیں ہوگا، یہی ہے خرابی کی اصل وجہ۔ جب آپ اس ساری صورتِ حال کے تناظر میں جائیں گے تو واضح ہوگا کہ ان لوگوں کا اصل مشن یہ ہے کہ زنا بالجبر کو زنا کے