کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 63
کی میعادِ تقرری تین سال گزرنے پر پوری ہوچکی تھی اور وہ لوگ کمیشن کے ممبر ہی نہیں رہے تھے۔ صرف واجدہ رضوی اور دو ایک خواتین ایسی تھیں جو خالی نشستوں پر نامزد ہوئی تھیں اور ان کی مدتِ تقرری ابھی پوری نہیں ہوئی تھی۔ (روزنامہ انصاف: ۲۵/مئی ۲۰۰۴ء)
اس ملک کا بڑا المیہ یہ ہے کہ اگر کوئی کہے کہ اس ملک میں اسلام نافذ کرنا ہے تو بیوروکریسی اسلام کو نافذ کرنے نہیں دیتی۔مجھے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے معاون کی حیثیت سے خصوصاً قصاص و دیت کے قانون میں کام کرنے کا موقعہ ملا۔ قصاص ودیت کا قانون بھی اس طرح کی شرعی تعبیرات ہیں ۔ لیکن ہمارے ہاں طریق کار یہ ہے کہ اسلام کے نام پر ایک مقررہ سزا (حد) تجویز کرکے اس کے ساتھ ایسی کڑی شرطیں لگا دی جاتیں ہیں جو موجودہ معاشرہ میں کبھی پوری نہ ہوسکیں اور پھر اگر کوئی شرط پوری نہ ہو تو اس حد کے بجائے تعزیر لاگو کردی جاتی ہے اور بالعموم ایسی سزائیں وہی سابقہ گھسی پٹی تعزیراتِ پاکستان ہوتی ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ دکھانے کوکچھ اور ہوتا ہے لیکن عملاً تعزیرات پاکستان ہی نافذ رہتی ہیں ۔یہی بات جسٹس (ر) جاوید اقبال نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں کہی کہ
’’مذہبی لوگوں کو راضی رکھنے کیلئے ہمیں قانون تو بنانے پڑتے ہیں لیکن ان کو مؤثر اور قابل عمل نہیں رکھاجاسکتا۔ ان کی حیثیت زیبائشی اور آرائشی قوانین کی ہوتی ہے۔یہ منافقت اس لئے ضرور ی ہے کہ ہم علما کو بھی ناراض نہیں کرسکتے لیکن اسلامی قانون کو مؤثر بھی نہیں کرسکتے۔ ‘‘
(دیکھئے کتاب ’اسلامی تہذیب بمقابلہ مغربی تہذیب‘ میں انٹرویو ، ص ۸۴)
مثال ملاحظہ کریں کہ حدود آرڈیننس میں چار مسلمان مرد عینی گواہ مقرر کئے گئے ہیں جس سے بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ حد نافذ کرنے کے لئے انتہائی مثالی معیار ہے۔ لیکن جب وہ گواہ میسرنہیں آئیں گے تو حدود کانفاذ نہیں ہوسکے گا اور پھراس طرح تعزیر کونافذ کردیاجاتا ہے۔ کیونکہ پاکستانی قانون میں تعزیر کے لئے چار گواہوں کی ضرورت نہیں بلکہ ایک گواہ اور قرائن کی موجودگی میں بھی تعزیر لاگو کی جاسکتی ہے۔گویا طریق کار ایسا اختیار کیا گیا ہے کہ نہ قصاص کا نفاذ ہوسکے اورنہ حدود کا۔ یہ سب کھیل ہے جس کے پیچھے اصل کردار بیوروکریسی کا ہے۔
قصاص و دیت کا قانون، قانونِ شہادت اور حدود آرڈیننس کو پڑھتے پڑھاتے میری عمر کا