کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 62
کو درست کیا جائے؟ جو یہ ہو کہ ’حدود آرڈیننس کو حدود اللہ کیسے بنایا جائے؟‘
سوال:میں آپ سے ’جیو‘ والا سوال پوچھنے حاضر نہیں ہوا اورمیرا اس پروپیگنڈا سے بھی تعلق نہیں ، حقیقت یہ ہے کہ یہ سارا پروپیگنڈہ سن کر میں خود بہت زِچ ہوا اور میں نے سوچا کہ اس کی صحیح صورتِ حال سے لوگوں کوآگاہ کرنا چاہئے اور میں آپ کے تفصیلی موقف کی درست اشاعت کی بھی ذمہ داری لیتا ہوں ۔
مدنی صاحب: ’محدث‘ میں حدود آرڈیننس کے بارے میں بہت کچھ شائع ہوتا رہا ہے،بالخصوص محدث کے سال ۲۰۰۴ء میں شائع ہونے والے تین شمارہ جات (سیریل نمبر:۲۷۶،۲۸۰ اور ۲۸۴) میں قانونی تجزیہ اور تقابل کرتے ہوئے مروّجہ حدود آرڈیننس کے خلاف مختلف مہمات کا پس منظر پیش کیا گیا اور اعتراضات کے جواب دیے گئے ہیں ۔ حدود آرڈیننس کے خاتمے سے اصل مقصود جنسی انارکی اور زنا کاری کو فروغ دینا ہے۔ اسی مقصد کے لئے حدود آرڈیننس کو بدنام کرنے کی مہم شروع کی گئی ہے۔ جب بدنام ہوجائے تو کہا جائے گا کہ اس کوختم کردیاجائے جیساکہ واجدہ رضوی رپورٹ میں یہی سفارش کی گئی ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے سابقہ چیئرمین اور خواتین حقوق کمیشن کے رکن جناب ایس ایم زمان نے اس سازش کی کسی قدر نقاب کشائی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ واجدہ رضوی نے طے شدہ اُصولوں اور طریقہ کار کو ترک کرکے غلط انداز اپنایا اور کراچی میں موجود کمیشن کا ایک اجلاس منعقد کرکے ارکان سے صرف یہ پوچھا گیا کہ آپ ہمیں یہ بتائیں کہ آپ کس بات کے حق میں ہیں : اس قانون کو منسوخ کیا جائے یا اس میں ترمیم کی جائے؟ اس کے بیس روز بعد اُنہوں نے یہ عندیہ دیا کہ ارکان کی اکثریت نے مذکورہ قانون منسوخ کرنے کے حق میں رائے دے دی ہے۔ چنانچہ اُنہوں نے ایک نئی رپورٹ تیار کی جس کا اس مسئلے پر پہلے سے تیار کردہ ڈرافٹ سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اس نئی رپورٹ میں حدود قوانین کی منسوخی کی سفارش کی گئی اور ترامیم کی مخالفت کی گئی تھی یعنی غلط طور پر اس رپورٹ کو کمیشن کی رپورٹ قرار دے کروزیراعظم اور صدر کو بھجوایا گیا۔ دراصل اسپیشل کمیٹی کا اجلاس اور اس کے بعد نیشنل کمیشن برائے خواتین کا اجلاس دونوں غیر آئینی تھے۔ کیونکہ اس دوران کمیشن کے ارکان کی اکثریت