کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 61
بارے میں یہ آواز اٹھتی ہی رہے گی کہ یہ قرآن و سنت کے مطابق ہے یانہیں ؟ لہٰذا اسے قرآن و سنت کے مطابق بناؤ۔ سعودی عرب میں شاہ فیصل مرحوم کے دور میں علما کے درمیان جدید انداز میں شریعت کی تقنین (Legislation)کی بحث چلی تو وہاں کے مشہور مفتی اکبر شیخ محمد بن ابراہیم اور ان کے شاگرد / جانشین مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجیدمیں حکام کو ما أنزل ﷲ (المائدۃ:۴۴)کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ کیا ہمارا شریعت کی دفعہ وار قانون سازی کرنا ما أنزل ﷲ قرار پاسکتا ہے؟ قطعاً نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شرعی قاضی ہمارے الفاظ کی بجائے محض قرآن و سنت کا پابند ہے۔ اس لئے میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمیں حدود اللہ کی دفعہ وار تقنین (شق وار قانون بندی) کی بجائے اُنہیں قرآن و سنت کے الفاظ میں نافذ کرنے کی طرف آگے بڑھنا چاہئے کیونکہ ہم کتاب و سنت سے بہتر وحی کی تعبیر پیش نہیں کرسکتے۔ یہی بات ایک مجلس میں مرحوم جسٹس گل محمد (چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت، پاکستان) نے اس وقت کہی جب سابق صدرِ پاکستان جناب غلام اسحق خان نے شریعت کی متفقہ دفعہ وار تقنین پر زور دیاتو جناب جسٹس صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایمان افروز الفاظ میں یوں جواب دیا کہ ’’شریعت تو وحی الٰہی ہے جو کتاب و سنت کی صورت میں ہمارے ہاں مکمل محفوظ ہے، اب کیا ہم وحی سے بہتر تعبیر پیش کرسکتے ہیں ۔‘‘ اس جواب پر مجلس میں خاموشی چھا گئی۔ اس سلسلے میں جیو ٹی وی چینل نے غیرمناسب طریقہ اختیار کیا ہے۔ پہلے ایک غلط سوال تیار کیااور پھر اپنی مرضی کا جواب تیار کرکے خاص مشن کے مطابق لوگوں کی ذہن سازی کی گئی۔ مختلف مقامات پر بڑے بڑے سائن بورڈ لگانے کا آخر کیامقصد ہے؟ اللہ کے قانون کو تماشا بنانے والوں کو آخرایک روز اللہ کے سامنے بھی جواب دہ ہونا ہے۔ بالفرض حدود آرڈیننس میں تعبیر شریعت کی غلطیاں ہیں لیکن بہرحال اسے قرآن و سنت یا ائمہ فقہا کی تشریحات کو سامنے رکھ کر تیار کیا گیا ہے۔ لہٰذا غلط پراپیگنڈہ کرنے کی بجائے اسے قرآن وسنت کے مطابق کرنے کی کوشش ہونی چاہئے، اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے سوال