کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 60
سوال: زنا آرڈیننس میں ترمیم کے بارے میں آپ کا موقف کیا ہے؟
جواب: جسٹس ناصر اسلم زاہد کا جو موقف اخبارات میں شائع ہوا ہے کہ زنا آرڈیننس کو قرآن کے مطابق بنایا جائے، میں اس سے متفق ہوں ۔ البتہ یہ بات مضحکہ خیز ہے کہ زنا آرڈیننس کو سرے سے ختم ہی کردیا جائے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ حدود آرڈیننس کو حدود اللہ کیسے بنایا جائے؟
سوال: کیا حدود آرڈیننس کوئی خدائی قانون ہے؟
جواب: یہ سوال بڑا عجیب ہے، یہ بات تو درست ہے کہ یہ آرڈیننس اللہ نے نازل نہیں کیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس میں ترمیم و اصلاح کے بعد جو قانون بنایا جائے گا،کیا وہ خدائی قانون ہوگا؟ وہ بھی تو انسانوں کا بنایا ہوا ہوگا۔ دراصل ہمارے ملک میں وہ تمام قوانین جوشریعت کے حوالہ سے لاگو ہیں ، ان کے بارے میں مشکل یہ ہے کہ انسان اسے اپنی زبان میں تیار کرتے ہیں اور پھر ایک خاص طریقہ سے ان کا نفاذ ہوتا ہے۔ جبکہ شریعت اللہ تعالیٰ کی وحی ہے جوقرآن وسنت کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔ہر وہ قانون جو (اجتہاد کے بعد) انسانوں کی اپنی تعبیر کی شکل میں نافذ ہوگا، اس کو نافذ کرنے کے بعد یہ مشکل ہمیشہ درپیش رہے گی اور اس میں جابجا تبدیلیوں کی ضرورت ہمیشہ پیش آتی رہے گی۔
سوال: پھرشریعت کے نفاذ کا طریقہ کیا ہونا چاہئے ؟
جواب: اس سلسلہ میں مثالی صورت تو یہ ہے کہ اجتہاد کے ذریعہ حدود اللہ کی تقنین (Legislation)یا اس کی دفعات کی تدوین(Codification) کی بجائے اُنہیں قرآن و سنت کی اصل شکل میں نافذ کردیا جائے اور جب حدود کا کوئی مقدمہ پیش آئے تو اس وقت قرآن و سنت کی اس سلسلہ میں وارد نصوص کوسامنے رکھ کر جج اجتہاد کرتے ہوئے اپنا فیصلہ صادر کرے لیکن اس کے لئے ضروری یہ ہے کہ جج قرآن و سنت کا ماہر عالم ہو اور شرعی اجتہاد کی صلاحیت بھی اس میں موجود ہو۔
ہماری چودہ سو سالہ اسلامی تاریخ میں شریعت کے نفاذ کا یہی طریقہ رہا ہے اور آج کل بھی خلیجی ممالک مثلاً سعودی عرب وغیرہ میں اسی طریقہ پرہی حدود اللہ کو نافذ کیا جاتاہے۔ پہلے سے انسانوں کی قانون سازی کے ذریعے جو حدود آرڈیننس بھی نافذ کیا جائے گا، اس کے