کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 6
٭ جسٹس تقی عثمانی جنہوں نے ۱۷،۱۸ برس حدود آرڈیننس وغیرہ کی سماعت کی ہے اپنا ذاتی تجربہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ ’’اغوا اور زنا کے جو سینکڑوں مقدمات میں نے سنے ہیں ، ان میں کم ازکم ۹۰ فیصد کیسوں میں سزاہمیشہ مرد کو ہوئی ہے۔‘‘ (کتابچہ ’حدود قوانین‘:ص ۲۰) طبقہ خواتین کی بے جا حمایت حاصل کرنے اور محض گرمی ٔ محفل کے لئے حدود قوانین کے خلاف ایسا پروپیگنڈہ٭ کیا جاتاہے۔ اسلام نے تو ہردو صنف کے ساتھ عدل وانصاف کے تمام ضابطے پورے کئے ہیں جبکہ پاکستان میں نافذ انگریزی قانون کی صورتِ حال یہ ہے کہ اس کا ٭ حدود قوانین پر یہ اعتراض بھی کیا جاتاہے کہ ان کے نفاذکے لئے مناسب فضا او رماحول کو مدنظر نہیں رکھا گیا، یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد زنا کے کیسوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوا۔ جبکہ یہ دونوں باتیں ہی درست نہیں۔ اوّل تو قانون کی ضرورت ہوتی ہی اس وقت ہے جب حالات زیادہ خراب ہوں۔ اس وقت محض وعظ وتبلیغ کی بجائے قانون کی مدد ا ور قوت سے بھی اسے روکنا پڑتا ہے۔ جب چوری بڑھ جائے تو کیا چوری کا قانون ختم کردینا چاہئے یا اس کو مزید قابل عمل اور سخت بنانا چاہئے۔حدود قوانین کے نفاذ کے وقت جرائم کا زیادہ ہونا بلکہ اس بات کی دلیل ہے کہ سابقہ قوانین ان جرائم کوروکنے میں ناکام ہوچکے تھے، اسی لئے اُن جرائم کی بہت کثرت ہوگئی تھی چنانچہ جرائم کے خاتمے کے لئے اللہ کے دیے ہوئے قوانین کو نافذ کیا گیا۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ حدود قوانین کے بعد ان جرائم میں مزید اضافہ ہوا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے زنا قانوناً جرم ہی نہیں تھا، اس کا پہلے قانونی اندراج ہی نہیں ہوتا تھا، جب اندراج ہونا شروع ہوا تب تو لازماً سابقہ صورتحا ل میں اضافہ ہی محسوس ہوگا۔ گویا اس جرم کی باقاعدہ رپورٹنگ کا آغاز ہی ۱۹۷۹ء کے بعد ہونا شروع ہوا۔تاہم یہ بات درست نہیں کہ اس کے بعد زنا کے جرائم میں اضافہ ہوا جیسا کہ ہندوپاک میں زنا کے جرائم کے ایک تقابلی مطالعے سے واضح ہے کہ ۱۹۹۱ تا ۱۹۹۵ء کے دوران بھارت میں اس جرم میں ۴ء۴۰ فیصد جبکہ پاکستان میں محض ۴ء۸ فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔(’حدود آرڈیننس ، نفاذ کے ۲۵ سال‘ از شہزاد شام) یہ بھی واضح رہے کہ بھارت کے اعداد وشمار پاکستان کے برعکس صرف زنا بالجبر کے ہیں کیونکہ پاکستان کے سابقہ قانون کی طرح بھارت میں زنا بالرضا جرم ہی نہیں ہے اوریہی صورت حال مغرب میں بھی ہے۔ ٭ بعض لوگ یہ بھونڈی دلیل بھی دیتے ہیں کہ برائی سے رکنا انسان کا اپنا فرض ہے؛ جو نہیں رکنا چاہتا، ا س کو قانون بھی نہیں روک سکتا۔اوّل تو یہ نکتہ (معاذ اللہ) اللہ تعالیٰ کو نہیں سوجھا کہ اُنہوں نے بلاوجہ انسانوں کو یہ حدود اللہ عطا کردیے، پھر یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ہماری حکومتوں نے باقی جرائم کے لئے قانون سازی کیوں کررکھی ہے،اُنہیں بھی انسانوں کے شعور اور پسند وناپسند پر کیوں نہیں چھوڑ دیا جاتا۔اگرجرائم کے بارے میں یہی رویہ ہونا چاہئے تو حکومت، عدلیہ اور پولیس کی پھر کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟دیگر جرائم کی روک تھام کے لئے تو قوانین کوسخت کیا جاتا ہے جبکہ حدود قوانین میں یہ منطق اُلٹ کردی جاتی ہے،کیوں؟؟