کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 52
حَمِدْتُّ ﷲَ اِذْ اَبْصَرْتُ طَیْرًا وَخِفْتُ حِجَارَۃً تُلْقَی عَلَیْنَا ’’جب میں نے پرندوں کو دیکھا تو اللہ کی تعریف کی اور ان پتھروں سے ڈرا جو ہم پر پھینکے جارہے تھے۔‘‘ (محمود شکری آلوسی، بلوغ الارب،۱/ ۵۴۵ مترجم ڈاکٹر پیر محمد حسن،لاہور ، ۱۹۶۷ء) اسی طرح عبداللہ بن قیس جو کہ قبیلہ بنی عامر بن لؤی بن غالب سے تھا، اُس نے اس واقعے کے بارے میں یہ اشعار کہے تھے : کَادَہُ الأَشْرَمُ الَّــذِيْ جَــآئَ بِالْفِیْلِ فَوَلّٰی وَ جَیْشُہٗ مَھْزُوْمٌ وَاسْتَھَلَّتْ عَلَیْھِمُ الــطَّیْرُ بِالْجَـنْدَلِ حَتّٰی کَأَنَّہٗ مَرْجُوْمٌ ’’(ابرہہ) اشرم نے جو ہاتھی لے کر آیا تھا اس کعبے کے خلاف چال چلی مگر اس کی فوج کو شکست ہوگئی اور وہ پیٹھ دکھا کر لوٹ گیا۔ پرندوں نے اُن پر پتھروں سے ہلّہ بول دیا اور ا س کی حالت یہ ہوگئی کہ گویا اسے سنگسار کردیا گیا ہے۔‘‘ (بلوغ الارب، جلد اوّل/ صفحہ ۵۵۲) 10. اجماعِ سنت کے خلاف غامدی صاحب جیسے تاویل بازوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ قرآن و سنت کے جن تفسیری اُمور پر اجماعِ اُمت ہے، اُس کے خلاف کوئی تاویل جائز نہیں ۔ایسی ہر تاویل گمراہ اور ضلالت کے سواکچھ نہیں ۔ سورۂ فیل کی متفقہ اور مجمع علیہ تفسیر وہی ہے جو ہم اس مضمون کے آغاز میں بیان کرچکے ہیں ، اس کے ہوتے ہوئے محض اختلاف کے شوق میں نئی تفسیر کرنا ہرگز درست نہیں ۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ چودہ برس سے پوری اُمت ِمسلمہ تو قرآنِ مجید کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکی اور صرف آج کل کے نام نہاد دانشور اُسے سمجھتے ہیں ۔کیا عقل سلیم یہ مان سکتی ہے کہ سلف و خلف کے علماے اسلام تو کتابِ مبین کی صحیح تفسیر نہیں کرسکتے اور آج کے وہ لوگ جن کا سرمایۂ افتخار ہی مغرب زدگی اور روشن خیالی کا احساس ہے۔ جن کے اذہان مغرب سے مرعوب ہوکر اصول دین کو بگاڑنے میں سرگرم عمل ہیں ۔ جو ’سبیل المومنین‘کی شاہراہ کو چھوڑ کر اِدھر اُدھر کی پگڈنڈیوں میں بھٹک رہے ہیں ۔ جن کے جنونِ اختلاف نے ان کو گمراہی کے گڑھے میں دھکیل دیا ہے؛کتاب اللہ کی پہلی بار درست تفسیر فرما رہے ہیں ؟