کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 50
لوگ حج کی سعادت حاصل کر چکے ہیں ، وہ ان دونوں وادیوں کی وسعت سے بخوبی واقف ہیں ۔ ج۔تیسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ سے اگر یہ ممکن ہے کہ وہ بے جان ہوا میں اتنی طاقت پیداکرسکتا ہے جس کے ذریعے کوئی لشکر تباہ ہوجائے تو کیا اللہ تعالیٰ سے یہ ناممکن ہے کہ وہ جاندار پرندوں کے پھینکے ہوئے سنگریزوں کے ذریعے کسی لشکر کو برباد نہ کرسکے۔ کیا یہ بات آج ایٹمی دور کے انسان کی عقل سے بالاتر ہے کہ اللہ تعالیٰ بلندی سے پتھروں کو گرا کر اُن سے چھوٹے چھوٹے ایٹم بموں کا کام نہیں لے سکتا۔ افسوس ایسی انسانی عقل پر جو ایک جگہ معجزے کا انکار کردیتی ہو اور دوسری جگہ معجزے کا اقرار کرلیتی ہو۔ 8. نصرتِ الٰہی کا قانون فکرِ فراہی کے حاملین سورۃ الفیل کی نادر تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اصحاب فیل کے واقعے کو بھی اللہ تعالیٰ کی اس سنت کی روشنی میں سمجھنا چاہئے کہ افراد کی جدوجہد ہوگی تو اللہ تعالیٰ اُن کی مدد کرے گا۔ اگر بندے کوئی کوشش نہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ بھی اُن کی کوئی مدد نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت نصرت و تائید بندوں کی کوشش کے ساتھ ہر حال میں مشروط نہیں ہے۔ قرآنِ مجید میں ایسے بکثرت واقعات موجود ہیں اور تاریخ اسلام بھی اس پر شاہد ہے کہ کئی بار ایسا ہوا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ یہ دیکھتا ہے کہ اس کے کمزور اور عاجز بندے کسی بوجھ اور ذمہ داری کواُٹھانے کی طاقت نہیں رکھتے تو وہ اپنے خاص فضل و کرم سے بندوں کو اُن کی سعی وکوشش کے بغیر ہی اپنی تائید و نصرت سے نوازتا ہے۔ مثال کے طور پر جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو آگ کے الاؤ میں ڈالا گیا تھا تو اُس وقت اُن کی کون سی سعی و کوشش تھی جس کے نتیجے میں وہ آتش ِ نمرود سے محفوظ رہے؟ حضرت خلیل اللہ کی وہ کون سی جدوجہد تھی جس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس آتش کدے کو سرد کردیا تھا۔ یا جب حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں چلے گئے تو ان کی وہ کون سی کوشش اور عملی جدوجہد تھی جس کے نتیجے میں ان کو وہاں سے نجا ت ملی؟ اگر یہ کہا جائے کہ اُنہوں نے اس مصیبت کے وقت دعا اور تسبیح کی تھی تو یہی دعا واقعہ اصحابِ فیل میں بھی موجود ہے۔