کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 5
حدود قوانین کیا خواتین کے خلاف ہیں ؟
حقوقِ نسواں اور مساواتِ مردوزَن کا نعرہ ایسا دل فریب ہے کہ اکثر مذموم مقاصد اس کے پس پردہ ہی پورے کئے جاتے ہیں ۔ اب بھی حدود قوانین میں ترامیم ’خواتین سے ظلم وزیادتی اور امتیاز کے خاتمے‘ کے نام پر لائی جارہی ہیں ۔ یاد رہے کہ حدود قوانین کے خلاف نمائندہ لٹریچر بھی خواتین حقوق پر کام کرنے والی این جی اوز ’عورت فاؤنڈیشن‘ وغیرہ نے ہی شائع کیا ہے مثلاً جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال کاکتابچہ ’زنا آرڈیننس کا تنقیدی جائزہ ‘، ڈاکٹر طفیل ہاشمی کی کتاب ’حدود آرڈیننس؛ کتاب وسنت کی روشنی میں ‘ اور ڈاکٹر محمد فاروق خاں کی کتاب ’حدود، حدود قوانین اور خواتین‘ وغیرہ
ان ترامیم پر تبصرہ سے قبل اس آرڈیننس پر بنیادی اعتراض کا جائزہ لینا مناسب ہوگا کہ
’’حدود قوانین عورتوں کے خلاف امتیازی ہیں ، ان کا نشانہ زیادہ ترخواتین بنتی ہیں اور ۸۰ سے ۹۰ فیصد تک خواتین اسی بنا پر جیلوں میں قید ہیں ۔ ‘‘
(قومی کمیشن برائے خواتین)
اس دعویٰ کی حیثیت پروپیگنڈہ سے زیادہ نہیں اور زمینی حقائق سے اس کی تائید نہیں ہوتی بلکہ یہ پاکستانی معاشرے پر ایک بڑا الزام ہے جس کا مطلب ہے کہ یہاں زنا کے جرائم بہت بڑی تعداد میں ہوتے ہیں جبکہ واقعاتی صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی چند بڑی جیلوں کے جائزہ کے بعد وہاں حدود کی ملزم خواتین قیدیوں کی تعداد ۳۱ فیصد سے زیادہ نہیں ، جولائی ۲۰۰۳ء کے ایک جائزے میں صوبہ سرحد کی ۹ جیلوں میں حدود مقدمات میں ۳۲ فیصد خواتین قید تھیں ۔ (سروے: ویمن ایڈ ٹرسٹ، کتابچہ ’حد زنا آرڈیننس ؛ اعتراضات کی حقیقت ‘: ص ۳۹)
٭ ایک امریکی سکالر چارلس کینیڈی نے ۵ سال میں پاکستان میں حدود کے مقدمات کا ایک جائزہ لے کر اپنی تحقیق کا یہ نتیجہ پیش کیاکہ ۱۹۸۰ء تا ۱۹۸۴ء کے پانچ برسوں میں ڈسٹرکٹ کورٹس میں زنا بالرضا میں ۱۴۵/ مردوں اور ۱۴۴/ عورتوں کو سزا سنائی گئی جن میں سے ۷۱ مردوں اور ۳۰ خواتین کی سزا وفاقی شرعی عدالت نے بحال رکھی۔ ایسے ہی زنا بالجبر کے کیس میں انہی سالوں میں ڈسٹرکٹ کورٹ نے ۱۶۳ مردوں اور ۲ عورتوں کو سزا سنائی جن میں سے وفاقی شرعی عدالت نے محض ۵۹ مردوں کی سزا بحال رکھی اور ان دو عورتوں کو بھی بری کردیا۔
(’پاکستان میں خواتین کی صورتحال‘ از چارلس کینیڈی:ص ۷۴، IPS)