کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 49
الفاظ واضح طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے عذاب کے پتھروں کے لئے آئے ہیں ۔ ان سے انسانوں کے پھینکے ہوئے پتھر یہاں کسی صورت مراد نہیں لئے جاسکتے۔ دوسرے مقام پر یہی الفاظ سورۃالحجر کی آیت ۷۴ میں آئے ہیں : ﴿فَجَعَلْنَا عَالِیَھَا سَافِلَھَا وَاَمْطَرْنَا عَلَیْھِمْ حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّیْلٍ﴾ ’’پھر ہم نے اُس (بستی) کو زیر و زبر کردیا اور اُن لوگوں پر کھنگر کے پتھر برسا دیے۔‘‘ اس جگہ بھی ﴿حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّیْلٍٍ﴾کے الفاظ انسانوں کے پھینکے ہوئے پتھروں کے مفہوم میں نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کی صورت میں برسائے گئے اُن پتھروں کے لئے استعمال ہوئے ہیں جن کے ذریعے قومِ لوط کو تباہ و برباد کردیا گیا تھا۔ بالکل یہی الفاظ ﴿بِحِجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّیْلٍ﴾ جب سورۃ الفیل میں بھی آئے ہیں تو ہم کیوں نہ ان سے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابرہہ کے لشکر پر عذاب کی صورت میں برسائے گئے پتھر مراد لیں جو اُن پرندوں کے ذریعے پھینکے گئے جن کو اللہ تعالیٰ نے اس لشکر پرمسلط کردیا تھا۔ جب یہاں قرآن کی تفسیر قرآن سے ہوسکتی ہے تو کیوں ان الفاظ کی دور از کار تاویلیں کرنی شروع کردیں ۔ 7. حَاصِب یعنی سخت آندھی غامدی صاحب اپنے ’اساتذہ ائمہ‘ کی ہم نوائی میں یہ کہتے ہیں کہ اصحابِ فیل کا لشکر تباہ کرنے میں دو عناصر کارفرما تھے: ایک قریش کی طرف سے پتھر پھینکنا اور دوسرے بعد میں اچانک سخت آندھی (حاصب) آجانا،مگر یہ تاویل کئی لحاظ سے صحیح نہیں ہے۔ أ۔ اوّل یہ کہ اس آندھی (حاصب) کے آنے کا کوئی ذکر سورۂ فیل میں نہیں آیا ہے صرف پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیجے جانے کا ذکر آیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ان میں سے کون سی تاویل اختیار کی جائے: وہ جسے قرآن بیان کرتا ہے یا وہ جسے قرآن بیان نہیں کرتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اصحابِ فیل کی تباہی میں آندھی (حاصب) ہی کا عنصر شامل کرنا ایک غلط تاویل ہے اور یہ ایک من گھڑت افسانے سے زیادہ نہیں ۔ ب۔ منیٰ کی پہاڑیوں سے قریش کا وادی مُحسّرمیں پتھر پھینک لینا یوں بھی ممکن نہیں ، جو