کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 48
زبان میں رمي کا فعل کسی چیز کو صرف بازو یا فلاخن ٭کے ذریعے پھینکنے کے معنوں میں آتا ہے اور یہ لفظ اُوپر سے کسی چیز کو گرانے کے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا۔ لیکن ان لوگوں کا یہ دعویٰ بھی غلط ہے۔حقیقت یہ ہے کہ عربیت میں رمي کا لفظ کئی معنوں میں آتا ہے۔ اس کے معنی کسی چیز کو ہاتھ یا فلاخن سے پھینکنے کے بھی ہیں اور بلندی سے نشانہ باندھ کر کوئی چیز نیچے گرانے کے معنی بھی ہیں ۔ اصل میں اس لفظ کے مفہوم میں بلندی یا پستی کا کوئی مفہوم شامل نہیں بلکہ اس لفظ کا بنیادی مفہوم کسی چیزکا نشانہ لے کر اس پر کوئی شے پھینکنا ہے۔ اہل عرب آج کل لڑاکا اور بمبار طیاروں کی گولہ باری اور بمباری کے لئے بھی یہی رمي کالفظ استعمال کرتے ہیں ۔ قرآن میں رمي کے مجازی معنی کسی پر تہمت لگانے، الزام تراشی کرنے اور بہتان طرازی کرنے کے بھی آئے ہیں جیساکہ سورۂ نور میں ہے کہ ﴿وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ﴾ ’’اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر (زنا کی)تہمت لگاتے ہیں۔‘‘(آیت۴)
لہٰذا رمي کے لفظ کو صرف بازو اور فلاخن کے ذریعے کسی چیز کے پھینکنے کے معنوں میں محدود اور منحصر سمجھنا عربیت کے خلاف ہے۔
6. بِحِجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّیْلٍ کے معنی
تفسیر کا یہی طریقہ سب سے عمدہ اور مستند ہے کہ پہلے قرآن کی تفسیر خود قرآن سے کی جائے۔ اس لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید بِحِجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّیْلٍ کے الفاظ اسی انداز میں صرف دوبار آئے ہیں اور دونوں مقامات پر ان سے مراد ’عذابِ الٰہی کے پتھر‘ ہیں نہ کہ انسانوں (یا قریش) کے پھینکے ہوئے پتھر۔
پہلی جگہ یہ الفاظ سورۂ ہود کی آیت ۸۲ میں اس طرح آئے ہیں کہ
﴿فَلَمَّا جَآئَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَھَا سَافِلَھَا وَاَمْطَرْنَا عَلَیْھَا حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّیْلٍ مَّنْضُوْدٍ﴾’’پھر جب ہمارا حکم آن پہنچا تو ہم نے اس (بستی)کی بلندی کو پستی بنا دیا اور ہم نے وہاں کھنگر کے پتھر برسا دے۔‘‘
یہ قومِ لوط پر عذابِ الٰہی کی کیفیت کا بیان ہے۔ اس میں حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّیْلٍ کے
٭ بازو سے گھما کر کسی چیز کو غلیل کی طرح دور تک پھینکنے والہ آلہ