کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 47
اس کے باہر عذاب کا کوئی اور سبب تلاش کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ب۔ دوسری مثال یہ ہے:﴿ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ سَیْلَ الْعَرِمِ ﴾(سبا:۱۶) ’’پھر ہم نے اُن پر بند کا سیلاب مسلط کردیا۔‘‘ اس مقام پر بھی قومِ سبا جس ذریعے اور سبب سے ہلاک ہوئی وہ سَیْلَ الْعَرِم ہے جو اَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ کے فوراً بعد آیا ہے۔بالکل یہی انداز سورۂ فیل کا بھی ہے۔ ج۔تیسری مثال یہ ہے:﴿لِنُرْسِلَ عَلَیْھِمْ حِجَارَۃً مِّنْ طِیْنٍ﴾ (الذاریات:۳۳) ’’تاکہ ہم اُن پر کھنگر کے پتھر برسائیں ۔‘‘ اس جگہ پر قومِ لوط علیہ السلام کی تباہی کا ذکر کرتے ہوئے لِنُرْسِلَ عَلَیْھِمْ (تاکہ ہم اُن پر مسلط کردیں ) کے بعد حِجَارَۃً مِّنْ طِیْنٍ(کھنگر کے پتھر) آیا ہے جو کہ قوم لوط کی ہلاکت و بربادی کی شکل ہے۔ بالکل یہی معاملہ سورۂ فیل میں بھی ہے۔ وہاں بھی وَاَرْسَلَ عَلَیْھِمْ طَیْرًا اَبَابِیْلَمیں طَیْرًا اَبَابِیْلَ ہی اصحابِ فیل کی تباہی کی صورت اور ذریعہ بنے ہیں نہ کہ قریش کا پتھراؤ یا کچھ اور۔ 5. تَرْمِیْھِمْ کا مفہوم غامدی صاحب بھی فکر فراہی کے دوسرے حاملین کی طرح تَرْمِیْھِمْ میں فعل کا فاعل قریش کو قرار دیتے ہیں ۔ حالانکہ اُن کا سرے سے اس سورت میں کہیں ذکر نہیں ( البتہ آگے کی سورۂ قریش، بعد میں موجود ہے) اور یہ ان لوگوں کی ذہنی اختراع اور اُپچ کے سواکچھ نہیں ۔ ہم اس سے پہلے واضح کرچکے ہیں کہ اَلَمْ تَرَ کا خطاب عام اور غیر معین ہوتا ہے۔ اس سے کوئی خاص گروہ مراد لینا قرآنی اُسلوب کے خلاف ہے۔ اس لئے یہاں قریش مخاطب نہیں ہوسکتے۔ بلکہ ان کو یہاں مخاطب سمجھنا قرآنِ مجید کی معنوی تحریف کے زمرے میں آتا ہے۔ سیدھی بات یہ ہے کہ تَرْمِیْھِمْ میں فاعل کی ضمیر اپنے قریبی مرجع طَیْرًا اَبَابِیْلَ کی طرف لوٹتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ پرندوں کے جھنڈ ہی تھے جو ہاتھی والوں پر کنکریاں پھینکتے تھے اور جس کے نتیجے میں اصحابِ فیل تباہ ہوئے۔ اس مقام پر ان لوگوں نے ایک اور لغوی نکتہ نکالنے کی کوشش کی ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ عربی