کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 46
’’کیا اُنہوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ کس طرح پہلی بار پیدا کرتا ہے اور پھر دوبارہ پیدا کرے گا۔‘‘ (العنکبوت :۱۹) یہ حقیقت ہے کہ اشیا کو پہلی بار پیدا کرنا اور دوبارہ پیدا کرنا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی قدرت و صنعت ہے، اس میں انسانی محنت اور کوشش کا کوئی دخل نہیں ۔ اس آیت کا اندازِ بیان بھی سورۂ فیل کی مذکورہ آیت جیسا ہے لہٰذا اصحاب ِ فیل کی تباہی وبربادی میں بھی قریش یا دوسرے انسانوں کی کسی کوشش کا کوئی دخل نہیں ہوسکتا۔ د۔ چوتھی نظیر یہ ہے:﴿اَلَمْ تَرَوْا کَیْفَ خَلَقَ ﷲُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا﴾ (نوح :۱۵) ’’کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کس طرح اُوپر تلے سات آسمان پیدا کئے ہیں ۔‘‘ اب ظاہر ہے کہ جس طرح سات آسمانوں کو ایک دوسرے کے اُوپر تلے پیدا کرنے میں کسی انسان کے کسب و فعل کو دخل نہیں ،اسی طرح سورۂ فیل میں بھی اس کے آغاز کے اُسلوب بیان میں اصحاب ِ فیل کی تباہی و بربادی میں قریش کا کوئی دخل نہیں ہوسکتا۔ 4. اَرْسَلَ عَلَیْھِمْ کے معنی قرآن میں جہاں کہیں کسی قوم کی ہلاکت و بربادی کے سلسلے میں اَرْسَلَ عَلَیْھِمْ کے الفاظ آئے ہیں ، وہاں اس کے بعد آنے والا اسم اس قوم کی ہلاکت و بربادی کی شکل کے طورپر آیاہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی کو عذاب کی صورت قرار دیا ہے۔ قرآن میں اس کی کئی مثالیں ہیں : أ۔ پہلی مثال:﴿وَفِیْ عَادٍ إذْ اَرْسَلْنَا عَلَیْھِمُ الرِّیْحَ الْعَقِیْم﴾ (الذاریات:۴۱) ’’اور عاد کے بارے میں ، جب ہم نے اُن پر منحوس آندھی چلا دی۔‘‘ اس مقام پر جس طرح اَرْسَلْنَا عَلَیْھِمُ کے بعد جو الرِّیْحَ الْعَقِیْم (منحوس آندھی) ہے، وہ قومِ عاد پر عذاب کی شکل ہے جس سے ان کی ہلاکت و بربادی ہوئی۔ بالکل اسی طرح ﴿وَاَرْسَلَ عَلَیْھِمْ طَیْرًا اَبَابِیْلَ﴾(اور ہم نے ان پرپرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ مسلط کردیے) میں بھی َارْسَلَ عَلَیْھِمْ کے بعد جو طَیْرًا اَبَابِیْلَ (جھنڈ کے جھنڈ پرندے) آیا ہے تو یہی عذابِ الٰہی کی وہ صورت ہے جس کے ذریعے اصحابِ فیل کی تباہی و بربادی ہوئی۔