کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 45
قرآن سے کی جائے۔ اس اُصول کے مطابق جب ہم سورۂ فیل پر غور کرتے ہیں تو اس کی کئی نظیریں موجود ہیں ۔
ا: پہلی نظیر یہ ہے:﴿اَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادٍ﴾ (الفجر:۶)
’’کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے ربّ نے قوم عاد سے کیا سلوک کیا۔‘‘
یہ آیت اپنے انداز ِ بیان ہی سے واضح کررہی ہے کہ قومِ عاد کے لئے جس عذابِ الٰہی کی طرف اشارہ ہے، اس میں کسی انسانی کوشش اور کسب کا کوئی دخل نہیں ہے۔ قومِ عاد پر جو عذاب بھیجا گیا وہ کوئی انسانی فعل نہیں تھا بلکہ سراسر قدرتِ الٰہی کا کرشمہ تھا۔
﴿اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ﴾ ’’کیا تو نے دیکھا کہ تیرے ربّ نے کیا کیا۔‘‘ کے اُسلوب سے واضح ہے کہ اس کے ضمن میں واقع ہونے والے فعل کا فاعل صرف ربّ ہی ہے۔ بالکل اسی طر ح سورۂ فیل کے شروع میں بھی پہلی آیت یوں ہے کہ
﴿اَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیْلِ﴾ (الفیل:۱)
’’کیا تو نے دیکھا کہ تیرے ربّ نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا سلوک کیا۔‘‘
اس آیت ِزیر بحث کا اُسلوب ِبیان بھی اس امر کی طرف اشارہ کررہا ہے کہ آگے جو فعل بیان ہوگا اس کا فاعل صرف ربّ ہے، بندوں کے فعل کا اس میں کوئی دخل نہیں ۔ لہٰذا اصحابِ فیل کے واقعے کی تفسیر میں ابرہہ کے لشکر کو تباہ کرنے میں بندوں کا خواہ وہ قریش ہوں یا کوئی اور، قطعاً کوئی دخل نہیں ہوسکتا۔ قریش کے کسی فعل کو بیان کرنے کے لئے یہ اُسلوب بالکل مناسب نہیں ہے۔
ب ۔ دوسری نظیر یہ ہے:﴿ أَلَمْ تَرَ إِلَىٰ رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ﴾ (الفرقان:۴۵)
’’کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے ربّ نے سائے کو کیسے پھیلایا ہے۔‘‘
ظاہر ہے اشیا کا سایہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے گھٹتا بڑھتا ہے اور سورج کی روشنی کے مختلف زاویوں سے بدلتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس قدرت میں انسانی فعل اور کوشش کا کوئی دخل نہیں ۔ یہاں بھی اُسلوب ِ بیان وہی ہے جو سورۂ فیل کے شروع میں بیان ہوا ہے۔
ج۔ تیسری نظیر یہ ہے:﴿اَوَلَمْ یَرَوْا کَیْفَ یُبْدِیُٔ ﷲُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ﴾