کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 44
’’ عکرمہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہاتھی والوں پرکنکر بھیجے تو ان میں سے جس کو وہ کنکر لگا، اس کی کھال گلنے لگی اور اس کو جُدري (جلد کی بیماری) نے آ لیا۔‘‘ اب ظاہر ہے قرآن کی جس تفسیر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مجمل طور پر بیان کر رہی ہو، اسی حدیث کی تشریح ایک جلیل القدر صحابی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرما رہے ہوں تو پھر اس تفسیر میں کیا شک باقی رہ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہاتھیوں کو مکہ پہنچنے سے روک دیا اور پرندوں کے کنکر پھینکنے کے ذریعے ان کو تباہ کر دیا تھا اور اس دعویٰ کا کیا جواز رہتا ہے کہ ہاتھیوں کا لشکر تو قریش کے پتھراؤ سے برباد ہوا اور پرندے صرف ان کی لاشوں کو کھانے کے لئے آئے تھے۔ 2. قرآن کا اسلوب ِ بیان سب سے پہلے اس سورہ میں قرآن مجید کے اسلوب ِ بیان پر غور کریں تو آغاز میں اَلَمْ تَرَ (کیا تو نے نہیں دیکھا) کے الفاظ آئے ہیں ۔ یہ اسلوبِ بیان قرآن میں عموماًغیر معین مخاطب کے لئے آتا ہے۔ جسے اصطلاح میں خطاب لغیر معین کہا جاتاہے اور یہ استفہامِ انکاری کے طور پر آتا ہے۔ اس اُسلوب میں کوئی خاص فرد یا گروہ مخاطب نہیں ہوتا بلکہ عام انسانوں سے خطاب کیا جاتاہے۔مثال کے طور پر قرآن میں ہے کہ ﴿اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادٍ ﴾ (الفجر:۶) ’’کیا تو نے دیکھا کہ تیرے رب نے قوم عاد سے کیا سلوک کیا ۔‘‘ ایک اور مثال یہ ہے کہ ﴿اَلَمْ تَرَ اِلٰی رَبِّکَ کَیْفَ مَدَّ الظِّلَّ﴾ (الفرقان:۴۵) ’’کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے ربّ نے سائے کو کیسے پھیلایا ہے۔‘‘ اس طرح سورۂ فیل کے شروع میں بھی اَلَمْ تَرَ کا خطاب کسی خاص فرد یا گروہ کے لئے نہیں ہے۔ لہٰذا اس سے خاص قریش کو مخاطب ماننا ہر گز درست نہیں ہے۔ 3. تفسیر القرآن بالقرآن قرآن کی تفسیر کا سب سے عمدہ اُصول جسے سب مانتے ہیں ، یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر خود