کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 42
’’اصل میں کَعَصْفٍ مَّاْکُوْلٍ کے الفاظ آئے ہیں ۔ کسی چیز کا نام اُس کے انجام کے لحاظ سے رکھنا عربی زبان کا ایک معروف اُسلوب ہے۔ یہ اسی نوعیت کی ترکیب ہے اور آیت کا مدعا یہ ہے کہ تمہاری مدافعت اگرچہ ایسی کمزور تھی کہ تم پہاڑوں میں چھپے ہوئے اُنہیں کنکر پتھر مار رہے تھے، لیکن جب تم نے حوصلہ کیا اور جو کچھ تم کرسکتے تھے، کر ڈالا تو اللہ نے اپنی سنت کے مطابق تمہاری مدد کی اورساف وحاصب کا طوفان بھیج کر اپنی ایسی شان دکھائی کہ انہیں کھایا ہوا بھوسا بنا دیا۔‘‘ (البیان، صفحہ ۲۴۱) غامدی صاحب نے سورۃ الفیل کی جو تفسیر فرمائی ہے وہ اس سے پہلے اُن کے استاذ امام مولانا امین احسن اصلاحی بھی اپنی تفسیر ’تدبر قرآن‘ میں فرما چکے ہیں۔ اُنہوں نے بھی سورۂ الفیل کا درج ذیل ترجمہ کیاہے : ’’کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے خداوند نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا۔ کیا ان کی چال بالکل برباد نہ کردی۔ اور اُن پر جھنڈ کی جھنڈ چڑیاں نہ بھیجیں ۔ تم ان کو مارتے تھے سنگ گل کے قسم کے پتھروں سے، بالآخر ان کو اللہ نے کھائے ہوئے بُھس کی طرح کردیا۔‘‘ (تدبر قرآن جلد ۹/ صفحہ ۵۵۷) اس ترجمے کے بعد مولانا اصلاحی صاحب اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ’’ہمارے مفسرین تو عام طور پر کہتے ہیں کہ قریش نے ابرہہ کا کوئی مقابلہ نہیں کیا بلکہ ان کے سردار عبدالمطلب قوم کو لے کر پہاڑوں میں جا چھپے اور خانہ کعبہ کو خدا کے سپرد کردیا کہ جس کا یہ گھر ہے وہ خود اس کی حفاظت کرے گا۔ ان کے نزدیک ترمی کا فاعل طَیْرًا أَبَابِیْلَ ہے۔ یعنی چڑیوں نے ابرہہ کی فوجوں پر سنگ باری کرکے اُن کو پامال کردیا۔ اگرچہ اس قول پر تمام مفسرین متفق ہیں لیکن گونا گوں وجوہ سے یہ بالکل غلط ہے۔‘‘ (تدبر قرآن، جلد۹، صفحہ ۵۶۱) دراصل سورۃالفیل کا یہی ترجمہ وتفسیر مولانااصلاحی صاحب کے استاد مولانا حمید الدین فراہی کی تحقیق ِ انیق ہے۔ جو ’مجموعہ تفاسیر فراہی‘ میں موجود ہے۔ اس طرح گویا فکر فراہی کے حاملین کی یہ متفقہ تفسیر ہوگئی ہے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ مذکورہ تفسیر قرآن کے نظائر، اجماعِ اُمت اور تاریخ و کلامِ عرب کے خلاف ہے، اس لئے ناقابل قبول ہے۔ اب ہم اپنے نقطہ نظر کو تفصیل سے پیش کریں گے: