کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 41
مطابق بیان کی ہیں ، اُن کی رُو سے یمن کا نائب السلطنت ابرہہ جب نو ہاتھیوں اور ساٹھ ہزار کا لشکر لے کر بیت الحرام کو ڈھا دینے کی غرض سے مکہ پر حملہ آور ہوا، تو قریش کھلے میدان میں ،اُس کے مقابلے کی طاقت نہ پاکر منیٰ کے پہاڑوں میں چلے گئے، اور وہیں سے اُنہوں نے اس لشکر ِجرار پر سنگ باری کی۔ اُن کی یہ مدافعت، ظاہر ہے کہ انتہائی کمزور تھی، لیکن اللہ پروردگارِ عالم نے اپنی قوتِ قاہرہ اس میں شامل کردی اور اس کے نتیجے میں ہوا کے تندوتیز طوفان(حاصب)نے ابرہہ کی فوجوں کو اس طرح پامال کیا کہ وادئ محصب میں پرندے دنوں اُن کی نعشیں نوچتے رہے۔ اُس زمانے کے ایک شاعر ابوقیس نے کہا ہے:
فـأرسل من ربھم حاصـب
یلفھم مثل لـف القـزم
’’پھر اُن کے پروردگار کی طرف سے اُن پر حاصب بھیجی گئی جو خس و خاشاک کی طرح اُنہیں لپیٹتی چلی جاتی تھی۔‘‘
’تو نے دیکھا نہیں ، میں واحد کے صیغے سے خطاب کا جو اُسلوب اس آیت میں ہے،یہ بالعموم اُس وقت اختیار کیا جاتا ہے، جب مخاطبین کے ایک ایک شخص کو فرداً فرداً متوجہ کرنا پیش نظر ہو۔‘‘ (البیان، صفحہ ۲۳۹)
اس کے بعد تیسری آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ
’’یہ ابرہہ کی فوجوں کی بے بسی سے کنایہ ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ساف وحاصب کے طوفان سے اُنہیں اس طرح پامال کیا کہ کوئی اُن کی لاشیں اُٹھانے والا بھی نہ رہا۔ وہ میدان میں پڑی تھیں اور گوشت خور پرندے اُنہیں نوچنے اور کھانے کے لئے، اُن پر جھپٹ رہے تھے۔‘‘ (البیان، صفحہ ۲۴۰)
پھر آگے چل کر آیت ۴ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
’’اصل میں تَرْمِیْھِمْ ہے۔ یہ اس سے پچھلی آیت میں عَلَیْھِمْ َکی ضمیر مجرور سے حال واقع ہوا ہے۔ ہوا کے تندوتیز تھپیڑوں کے ساتھ ابرہہ کے لشکر پر آسمان سے جو سنگ باری ہوئی، اس کے لئے اگر غور کیجئے تو یہ لفظ نہایت صحیح استعمال ہوا ہے۔ پرندوں کے پتھر پھینکنے کے لئے، جس طرح کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے، اسے کسی طرح موزوں قرار نہیں دیا جاسکتا۔‘‘ (البیان، صفحہ ۲۴۰)