کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 4
ہوئے کی جائیں گی۔‘‘ (روزنامہ ’نوائے وقت‘: ۲/اگست۲۰۰۶ء، صفحہ آخر)
حکومت کی طرف سے تجویز کی جانے والی ان ترامیم کو ’تحفظ ِخواتین بل ۲۰۰۶ء‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یوں تو ان ترامیم کی خبریں اخبارات میں کئی دنوں سے شائع ہورہی ہیں لیکن تاحال اصل یا مستند مسودۂ قانون اسمبلی میں پیش نہیں کیا گیا، البتہ ۳/اگست کے اخبارات کے مطابق وفاقی کابینہ نے وزیر اعظم کی سربراہی میں اس بل کی اُصولی منظوری دے دی ہے اور ہفتہ بھر میں اس کو قومی اسمبلی میں بھی پیش کردیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق حکومت نے اس سلسلے میں اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقاتوں کے ذریعے اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی کوششیں بھی شروع کردی ہیں ۔ وفاقی کابینہ کے منظو رکردہ مسودۂ قانون کی مختصراًتفصیلات یہ ہیں کہ
’’1. زنا بالجبر کے جرم کو حدود آرڈیننس سے نکال کر تعزیراتِ پاکستان کا حصہ بنادیا گیا ہے اور اس کے لئے موت اورعمرقید کی سزائیں مقرر کی گئی ہیں ۔ 2. زنا بالجبر میں چار گواہوں کی شرط کا خاتمہ اورزنا بالرضا میں چارمرد گواہوں کی بجائے محض چار بالغ افراد کی گواہی کو کافی قرار دیا گیا ہے۔3. پولیس کے پاس ایف آئی آر درج کرانے کی بجائے سیشن کورٹ کے پاس زنا کی شکایت درج ہوگی جس میں چار گواہ اور شکایت کنندہ کے بیانات موقع پر ہی درج ہوں گے۔ 4. مالی معاملات میں ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی کی بجائے ایک مرد اورایک عورت کی گواہی یا عدالت کی مطلوبہ گواہی کافی قرار دی گئی ہے۔‘‘ (روزنامہ ’اُمت‘ کراچی: ۴ /اگست)
حدود قوانین پر بحث و مباحثہ کا آغاز اس بہانہ کے ساتھ کیا گیا تھا کہ ’’حدود اللہ پر کوئی بحث نہیں لیکن حدود آرڈیننس خدائی نہیں ۔‘‘جبکہ مذکورہ بالا ترامیم کا سرسری مطالعہ ہی اس امر کی نشاندہی کے لئے کافی ہے کہ نئے مسودۂ قانون میں حدود آرڈیننس کے نام پر حدود اللہ میں ہی ترمیم کی جسارت کی گئی ہے جس کی تفصیلات آگے آرہی ہیں ۔
قرآنِ کریم میں حدود اللہ کے بارے میں مسلمانوں کو پہلے ہی تنبیہ کی جاچکی ہے کہ
﴿تِلْکَ حُدُوْدُ ﷲِ فَلاَ تَقْرَبُوْہَا﴾ (سورۃ البقرۃ:۱۸۷)
’’یہ اللہ کی حدیں ہیں ، ان کے( ارتکاب کے) قریب بھی مت جاؤ۔‘‘
﴿ وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ ﷲِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ ﴾ (سورۃ الطّلاق:۲)
’’اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا تو بلاشبہ اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔‘‘