کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 39
بسلسلہ غامدیت محمد رفیق چودھری
سورۃ الفیل کی غلط تاویل
قرآنِ کریم کے اوّل مخاطب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں ، اور ایک کلام اسی وقت ہی بلیغ ومبین کہلا سکتا ہے جب وہ اپنے اوّل مخاطبین کی سمجھ میں آئے، وگرنہ اس کے اِبلاغ میں نقص ماننا پڑے گا۔ اس لحاظ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی قرآن فہمی کو دیگر اہل علم پر کئی پہلوؤں سے ترجیح حاصل ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی قرآن فہمی کے تین مرحلے ہیں اور تینوں کے احکام مختلف ہیں : 1. جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ فلاں آیت اس واقعہ کے بارے میں نازل ہوئی تو اس واقعہ کے تعین،حقیقت اورکیفیت کے بارے میں صحابہ کا موقف حجت ہے،کیونکہ وہ نزولِ قرآن کے عینی شاہد اور حاضرین مجلس تھے۔ 2. پھر قرآن چونکہ ان کے محاورے میں نازل ہوا، اسلئے کسی قرآنی لفظ کے لغوی مفہوم کے تعین میں بھی صحابہ کو دیگر اُمت پر ترجیح حاصل ہے۔یہ دونوں صورتیں صحابہ کی درایت ِتفسیری کی قبیل سے ہیں ۔3. البتہ ان آیات سے مزید کن معانی ومفاہیم کا استنباط واستخراج ہوتا ہے اور یہ کس فقہی مسئلہ کی دلیل بنتی ہیں ، اس بارے میں کسی ایک صحابی کا اجتہاد لازماً حجت نہیں ۔یہ ’درایت ِاجتہادی‘ کہلاتی ہے۔
فراہی مکتبہ فکر نے سورۃ الفیل کے واقعہ کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زبانی ایک واقعہ کے تعین اور اس کی تفصیلات کو پس پشت ڈال کر مسلمہ اُصولِ تفسیر کی مخالفت کی ہے۔اللہ کی قدرتِ کاملہ کے یک گونہ انکار، تفسیر صحابہ رضی اللہ عنہم کی مخالفت اور سبیل المومنین سے فرقہ غامدیہ کے انحراف کی ایک اور مثال ہدیۂ قارئین ہے۔ (ح م)
قرآن مجید کی سورۃ الفیل میں أصحاب الفیل(ہاتھی والوں ) کے جس واقعے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس کی صحیح، متفقہ اور مجمع علیہ تفسیر میں بھی فکر فراہی کے حاملین نے اختلاف پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔
اصل واقعہ جس پر سلف سے خلف تک، تمام مفسرین کرام کا اتفاق اور اجماع ہے، مختصر طور پر یہ ہے کہ یمن کا ایک متعصّب عیسائی حکمران اَبرہہ ساٹھ ہزار کا لشکر لے کر ہاتھیوں کے ہمراہ خانہ کعبہ پر حملہ آور ہوا تاکہ اسے مسمار کردے۔قریش ِمکہ اتنے بڑے لشکر کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے، اس لئے وہ اس موقع پر قریب کے پہاڑوں میں چلے گئے۔ جب وہ لشکر مزدلفہ اور منیٰ