کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 38
قانون کا بنیادی مقصد معاشرے میں عدل وانصاف اور امن وامان کا قیام ہے۔ اللہ کی عطا کردہ یہ حدود ہمیشہ سے مسلم معاشروں میں امن کی ضامن رہی ہیں اور آج بھی دنیا کی واحد ریاست سعودی عرب جہاں یہ حدود نافذ ہیں ، اپنے امن وامان کے لحاظ سے پوری دنیا کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے جس کی شہادت کئی معزز عدالتی شخصیات بھی دے چکی ہیں ، طالبان کے چند سالہ نظامِ حکومت سے کئی اختلاف کئے جاسکتے ہیں لیکن اُنہوں نے بھی اس عرصہ میں جس طرح امن وامان قائم کیا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ دوسری طرف مجموعہ تعزیراتِ پاکستان جس قانونی ماڈل کا نمائندہ ہے، اس کے شاہکار مجموعہ ہائے قوانین آج بھی امریکہ ویورپ میں امن وسکون قائم نہیں کرسکے۔ امریکہ میں امن وامان کی صورتحال کے لئے کسی ایک سال کے جرائم کی رپورٹ پر ایک مختصر نظرڈال لینا ہی کافی ہوگا۔ دراصل حدود قوانین کے بارے میں اصل مسئلہ ترمیم اور اصلاح کا نہیں بلکہ ان اعتراضات کے بہانے الٰہی احکام کی بجائے انسانی قانون کو رواج دینے کی ایک کوشش ہے۔ حضرت انسان کی نظر میں بعض چیزیں جرم نہیں ہونی چاہئیں جبکہ خالق انسان کی نظر میں وہ سنگین ترین جرم ہیں ۔ ان ترامیم پر معمولی غور کے بعد بآسانی یہ پتہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کا رخ کس طر ف ہے؟ تعمیر کے نام پر تخریب اور اصلاح کے نام پر معاشرے کو بے خدا بنانے کی یہ کوششیں اہل ایمان سے مخفی نہیں رہ سکتیں ۔اگر ان قوانین میں اصلاح کی کوئی ضرورت ہے تو اس کے لئے مناسب پلیٹ فارم ٹی وی چینل اور اخبارات نہیں بلکہ اہل علم اور ماہرین قانون وشریعت کی مجالس ہیں ۔ اوریہی بات سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس نے کہی ہے : ’’کراچی، جسٹس سعید الزماں صدیقی نے کہا ہے کہ حکومت حدود قوانین کے لئے وفاقی شرعی عدالت سے رجوع کرے۔ دستورِ پاکستان میں موجود اسلامی حدود کے قوانین میں کوئی سقم نہیں ہے۔ حدود اللہ کے قوانین ختم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مگر ان کے نفاذ میں دشواریاں یا شکایات دور کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے جمعہ کے روز ویمن کمیشن سندھ کے تحت سیمینار ’حدود آرڈیننس: اعتراضات اورحقائق‘ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔‘‘ (روزنا مہ ’جنگ ‘کراچی: ۵/ اگست ۲۰۰۶) (حافظ حسن مدنی)