کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 37
کوڑوں کی شکل میں دی جاتی ہے)۔از خود قذف کی کاروائی کا مطالبہ، ایسے ہی تہمت لگانے کے دعویٰ پر دو افراد کی شہادت کا خاتمہ اور صرف عدالت کی مطلوبہ شہادت پر اکتفا وغیرہ کی ترامیم وغیرہ۔ ان ترامیم کے رجحانات اور شرعی حیثیت بخوبی واضح ہیں ، اختصار کے پیش نظر اس بحث کو یہیں پرختم کیا جاتا ہے۔ اختتامیہ:اوپر چار ترامیم کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر پیش کیا گیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی ترمیم ایسی نہیں جسے کتاب وسنت کی روح سے ہم آہنگ قرار دیا جاسکے۔ اسلام نے جس انداز سے ان جرائم کے خاتمے کا رویہ اپنایا ہے، ان ترامیم کے ذریعے اسلام کے نام پر بنائے گئے قوانین میں بھی جرائم کے خاتمے کے لئے نہ صرف مغربی اُسلوبِ قانون اپنایا جارہا ہے بلکہ تجویز کی جانے والی سزائیں بھی خلافِ اسلام ہیں ۔ سوچنے کا مقام ہے کہ حدود قوانین میں اس ترمیم کی کونسی ہنگامی ضرورت پیش آگئی اور کیا پاکستان میں یہ واحد قانون ہی ایسا ہے جس میں اصلاحات کی گنجائش ہے۔ انگریزوں کا عطا کردہ مجموعہ تعزیرات جس سے پاکستان پینل کوڈ ماخوذہے، کونسا مقدس صحیفہ ہے جو ہر قسم کی خطا سے پاک ہو۔ حدود قوانین میں مسائل کی بنیادی وجہ زیادہ تر پولیس کا نظام اور مروّجہ عدالتی طریقہ کار ہے جس سے مظلوم کی داد رسی انتہائی مشکل ہے۔کیا اس قانون کے تحت ملک میں ہر شخص کو عدل وانصاف مہیا ہورہا ہے۔ اس سوال کا جواب جاننے کے لئے عدل وانصاف کے ایوانوں کا ایک طائرانہ جائزہ لینا ہی کافی ہوگا۔ سسکتی انسانیت کو انصاف حاصل کرنے کے لئے کونسے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ، اہل نظر بخوبی جانتے ہیں ۔ حدود قوانین پر ہی یہ عنایا ت اس لئے ہیں کہ یہی وہ قوانین ہیں جو اسلام کے نام پر نافذ کئے گئے، ان پر اعتراض کرنے والے وہی ہیں جنہیں وفاقی شرعی عدالت کا وجود بھی گوارا نہیں ۔ اُنہیں اسلام کے نام پر ہر قانون میں سو خرابیاں نظر آجاتی ہیں اور ان کی ترمیم کے درپے ہوجاتے ہیں ۔ ان قوانین کے بارے میں اکثر وبیشتر یہ الزام لگتا ہے کہ انہیں ایک آمر نے متعارف کرایالیکن جنرل ایوب کے عائلی قوانین ہوں یا جنرل مشرف کی قتل غیرت یا توہین رسالت کے حوالے سے اسلام مخالف ترامیم، وہاں کوئی بھولے سے بھی آمریت کا نام تک نہیں لیتا۔ یہی وہ ’منتخب اخلاقیات‘ ہیں جن کا حدود قوانین کوسامنا ہے!!