کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 35
چوتھی ترمیم بہ سلسلہ اندراجِ مقدمہ
پولیس کے پاس ایف آئی آر درج کرانے کی بجائے سیشن کورٹ کے پاس زنا کی شکایت درج ہوگی جس میں چار گواہ اور شکایت کنندہ کے بیانات موقع پر ہی درج ہوں گے۔
تبصرہ: اس ترمیم کے ذریعے یہ قانون سازی کی جارہی ہے کہ وقوعہ کی رپورٹ کے لئے بھی چار گواہ ضروری ہوں ، جبکہ اسلام کی رو سے چار گواہ وقوعہ کی رپورٹ کی بجائے زنا کی سزا سنانے کے لئے ضروری ہیں ، جرم کی نشاندہی تو کوئی ایک فرد بھی کرسکتا ہے۔
(دیکھیں صفحہ ۱۰ پر درج احادیث میں نشان زد الفاظ: ایک شخص اورایک عورت)
جہاں تک موجودہ قانون کا تعلق ہے تواس کی رو سے بھی زنا سے سنگین سزاؤں مثلاً قتل اور بغاوت کے لئے رپورٹ کا یہی طریقہ موجود ہے۔ یوں بھی کسی جرم کے لئے بھی آغاز میں تمام گواہیاں طلب نہیں کی جاتیں ۔کسی کیس میں دو مرحلے ہوتے ہیں :ایک وقوعہ کی رپورٹ کا اور دوسرا وقوعہ کے ثبوت کا جو عدالت کاکام ہے اور یہاں گواہی کی تفصیلات کے پیش نظر مجرم کو سزا سنائی جاتی ہے جبکہ پولیس کا کام محض ایف آئی آر (فرسٹ انکوائری رپورٹ) درج کرنا ہے، نہ کہ گواہوں کی جانچ پڑتال کرنا۔ مذکورہ ترمیم پر اعتراضات حسب ِذیل ہیں :
1. جب زنا سے بھی سنگین جرائم کے لئے ایسا ضروری نہیں تو پھر زنا بالرضا کے ساتھ ہی یہ امتیازی سلوک کیوں ؟اگر پولیس رپورٹ کرنے والوں کو خراب کرتی ہے تو پولیس میجر ایکٹ کی اصلاح کی ضرورت ہے، نہ کہ ایسی ترمیم کہ قانون پر عمل درآمد ہی ممکن نہ رہے۔
2. زنا بالجبر کے لئے موجودہ قانون اور مجوزہ ترمیم میں یہ شرط نہیں رکھی گئی تو پھر زنا بالرضا کے لئے ہی یہ طریقہ کار کیوں اختیار کیا جارہا ہے؟ اس کامقصد دراصل مدعی کوہراساں کرنا ہے تاکہ وہ ایسا کوئی مقدمہ درج کرانے سے پہلے ہی گھبرا جائے۔ کیونکہ عدالتوں کی موجودہ صورتحال تو یہ ہے کہ آج کوئی بھی عدالتوں میں گواہی کے لئے آنے پر تیار ہی نہیں ہوتا۔
3. بنیادی طورپر رپورٹ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ معاونت ہے کہ اُنہیں ایک جرم کے وقوع کی نشاندہی کی جارہی ہے لیکن اس ترمیم کے ذریعے گویا زنا کے ملزموں کو تادیبی کاروائی کرنے کی بجائے سب سے پہلے رپورٹ کرنے والے کو ہی مجرم بنایا