کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 34
4. یہ قانونِ فطرت کے خلاف ہے جس میں لڑکیاں لڑکوں سے پہلے بالغ ہوجاتی ہیں ۔ ایسے ہی لڑکے تو بلوغت کے بعد ہی جنسی فعل کی صلاحیت حاصل کرتے ہیں جبکہ لڑکیوں سے بلوغت سے قبل بھی جنسی فعل کیا جانا ممکن ہے ، گو مجرمانہ ہی سہی۔اس لحاظ سے بھی سابقہ قانون میں لڑکیوں کو قانونی داد رسی ملنا زیادہ آسان ہوجاتا ہے۔
زنا کا تعلق بنیادی طورپر ذہنی بلوغت کی بجائے جسمانی صلاحیت سے ہے جو مختلف علاقوں ، موسموں اور ماحول کے نتیجے میں مختلف عمروں میں حاصل ہوتی ہے۔اس کی ایک عمر مقرر کردینے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بعض لڑکے جرم کی صلاحیت تورکھیں گے ، لیکن جرم کے ارتکاب کے باوجود قانون ان پر گرفت نہیں کرسکے گا۔
5. اس کو ذہنی بلوغت سے جوڑنے کی وجہ پر غور کریں کہ اس فعل میں کونسی ذہنی صلاحیتوں کا اظہار مقصود ہے کہ اس کو ذہنی بلوغت سے جوڑا جائے؟ صاف نظر آتا ہے کہ اس کے پس پردہ دراصل زنا کے بارے میں وہی رضامندی کا فلسفہ کارفرما ہے کہ چونکہ آج کل اس عمر سے قبل رضامندی یا عدمِ رضامندی کا اعتبار نہیں کیا جاتا، اس لئے یہ عمر مقرر کی جائے۔
٭ اس ترمیم کے ذریعے حدود آرڈیننس کی دفعہ ۵ اے میں تبدیلی مقصود ہے جس میں ہے کہ
’’وہ مرد موجب ِحد ہے جو اپنی منکوحہ کے علاوہ کسی بھی بالغ یا نابالغ لڑکی سے مباشرت کرے۔‘‘
غور کریں کہ کیا اس شق میں عورتوں کے ساتھ صنفی امتیاز برتا گیا ہے یا ان کے مفاد کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ زنا سے اصل نقصان کس کو ہے، مرد کو یا عورت کو؟ ظاہر ہے کہ کنواری لڑکی کے لئے اس کا نقصان،حمل کی ذمہ داری اور بدنامی وغیرہ کا مرد سے کوئی تقابل ہی نہیں ہے۔ اس لئے حدود قوانین میں لڑکیوں کو تحفظ دیتے ہوئے ان کے خلاف اوائل عمری میں ہی ہونے والے جنسی تشدد کو بھی قابل سزا قرار دیا گیا ہے۔اس دفعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے قومی کمیشن برائے خواتین نے یہ تجویز کیا ہے کہ یہاں عورت کے ساتھ بالغ کا اضافہ کیا جائے۔اگر اس ترمیم کو تسلیم کرلیا جائے تو ۱۸ سال سے کم عمر کی لڑکیوں کو حدود قوانین کا تحفظ حاصل نہیں رہے گا۔کیا یہ تجویز دانشمندی پرمبنی ہے یامحض مرد عورت میں مساوات کی ایک مجنونانہ خواہش!