کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 33
ہوجاتی ہیں جبکہ سکول کی تعلیم کا مرحلہ ۱۸ سال سے پہلے ہی ختم ہوجاتا ہے۔
اسلام نے جسمانی صلاحیتوں کے لئے علاماتِ بلوغ کو ہی بنیاد بنانے کو ترجیح دی ہے۔ جیساکہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے کہ
عرضت علی رسول ﷲ یوم أحد وأنا ابن أربع عشرۃ فلم یجزني ولم یرني بلغتُ ثم عرضت علیہ یوم الخندق وأنا ابن خمس عشرۃ فأجازني
’’ مجھے جنگ اُحد کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا اور اس وقت میری عمر۱۴ برس تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو مجھے اجازت دی اور نہ ہی مجھے دیکھا کہ میں بالغ ہوا ہوں ؟ پھر دوبارہ مجھے جنگ ِاحزاب کے موقع پر لایا گیا جبکہ میری عمر ۱۵ برس ہوچکی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جنگ میں شرکت کی اجازت دے دی۔‘‘
(سنن دار قطنی: ۴/۱۱۰، صحیح بخاری:۲۶۶۴)
صحیح مسلم میں ہے کہ جب میں نے عمر رضی اللہ عنہ بن عبد العزیزکو یہ واقعہ بتایا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
إن ہذا لحد بین الصغیر والکبیر (صحیح مسلم زیر حدیث : ۱۸۶۸)
’’چھوٹے اور بڑے میں یہی حد بندی ہے۔‘‘
ازروئے اسلام جرم پر مسؤلیت کا تعلق مردوزن ہر دو کے لئے عمرکی بجائے جسمانی علاماتِ بلوغ سے جوڑنا زیادہ بہتر ہے۔
(اسلام کا فوجداری قانون ازجسٹس عبد القادر عودہ رحمۃ اللہ علیہ : ۱/۷۱۲)
اس ترمیم پر ملکی قانون کی رو سے اعتراضات حسب ِذیل ہیں :
1. پاکستان کا عائلی قانون تو لڑکی کی شادی کی کم از کم عمر۱۶ سال اور لڑکے کی ۱۸ سال بتاتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس عمر میں لڑکی سے جنسی تعلق قائم کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ اس ترمیم میں یہ عمر ۱۸ سال ذکر کی گئی ہے، گویا یہ ترمیم عائلی قانون سے ہی متصادم ہے ۔
2. مجموعہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ ۸۳ کی رو سے ۷ سے ۱۲ سال کے بچے کو فوجداری مسؤلیت سے مستثنیٰ کیا گیا ہے، اس سے بڑی عمر کے بچے کو یہ رعایت حاصل نہیں ۔ زنا کے جرم کو ہی ایسی رعایت کیوں کہ اس کی سزا کے لئے ۱۸ سال کی شرط لگا دی جائے۔
3. اس ترمیم کو تسلیم کرلینے سے ۱۸ سال سے چھوٹے لڑکے / لڑکیوں کے جنسی تعلقات قانون کی گرفت سے باہر نکل جائیں گے۔ اس عمر میں گناہ کی کھلی چھوٹ سے جس زندگی کی عادت پیدا ہوگی، بعد میں اسے کیوں کر روکا جاسکتا ہے ؟