کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 32
یہی بات درست ہے۔‘‘ (سلسلہ صحیحہ از شیخ البانی: رقم ۹۰۰) امام بیہقی نے اپنی سنن میں بھی اس حدیث سے یہی استدلال کیا ہے، لکھتے ہیں : فعلی ہذہ الروایۃ یحتمل أنہ إنما أمر بتعزیرہ ویحتمل أنہم شہدوا علیہ بالزنا واخطأوا في ذلک حتی قام صاحبہا فاعترف بالزنا وقد وجد مثل اعترافہ من ماعز والجہنیۃ والغامدیۃ ولم یسقط حدودہم أحادیثہم أکثر ’’اس روایت کی بنا پر احتمال ہے کہ آپ نے اس پر تعزیر کا حکم لگایا ہو۔ کیونکہ امکان ہے کہ گواہوں نے زنا کی گواہی میں غلطی کھائی ہو اور اصل مجرم نے خود ہی زنا کا اعتراف کیا ہو۔ (تعزیر قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ) ماعز، جہنیہ، غامدیہ وغیرہ نے بھی ایسا اعتراف کیا لیکن ان کی حدود کو تو ساقط نہیں کیا گیا۔‘‘ (سنن کبریٰ بیہقی: ۸/۲۸۵) ممکن ہے یہاں یہ اعتراض کیا جائے کہ دوسرے ملزم کے اعتراف کے بعد اسے حرابہ (تعزیر ) میں لے جانے کی ضرورت ہی نہیں رہتی بلکہ حد کے تقاضے(چارگواہ یا اعتراف) پورے ہوجاتے ہیں ۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں دو مردوں کا اعتراف ثابت ہورہا ہے ، پہلے کا اعتراف زبانِ حال سے اور دوسرے کا زبانِ قال سے۔ایک طرف یہ دونوں اعتراف ٹکڑا رہے ہیں تو دوسری طرف یہ بھی احتمال ہے کہ دوسرے نے محض پہلے کو بچانے کی خاطر یہ اعتراف کرلیا ہو۔ اس بنا پر شبہ پیدا ہوگیا اور شبہ میں بھی حدود ساقط ہوجاتی ہیں ۔ اس لئے حرابہ کی تعزیر کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔اورتعزیر میں قبل از گرفتاری توبہ یا ﴿مَنْ أَحْیَاہَا فَکَانَّمَا أَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا﴾ کے تحت ا س کو بھی معاف کردیا گیا ہو۔ واللہ اعلم تیسری ترمیم بہ سلسلہ عمر حدود قوانین میں بالغ لڑکی پر مقدمہ بنادیا جاتا تھا اور اس عمر میں ذ ہنی بلوغت نہیں ہوپاتی جبکہ لڑکے کے لئے کم از کم ۱۸ سال کی عمرمتعین کی گئی تھی۔ چنانچہ ’موجودہ‘ قانون میں لڑکے اور لڑکی دونوں کے لئے عمر کا تعین ۱۸ سال کردیا گیا ہے۔ تبصرہ: یہ ترمیم بھی عجیب ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔ زنا کا تعلق ذ ہنی بلوغت کی بجائے جسمانی بلوغت سے ہے۔مغربی ممالک کے اعداد وشمار پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ سکول کی تعلیم کے دوران ہی کتنے بچے جنسی تعلقات قائم کرلیتے ہیں اور کتنی لڑکیاں اسی عمر میں حاملہ