کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 30
عورت کے ساتھ سنگین زیادتی کے واضح قرائن موجود ہوں اور معاشرے میں خوف وہراس پھیلا ہو لیکن چار گواہیاں موجود نہ ہوں توایسی صورت میں قاضی کو اختیار ہے کہ وہ معاملہ کی سنگینی کے مطابق حرابہ کی چاروں قرآنی سزاؤں میں جو بھی اختیار کرلے: مجرم کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا، سولی چڑھانا، مخالف سمت سے ہاتھ پاؤں کاٹنا یا کم تر سزا محض جلاوطن کردینا۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ حرابہ کی سزا (تعزیر) حدود میں شامل نہیں اور قابل معافی بھی ہے اور یہاں چار گواہوں کی ضرورت بھی نہیں بلکہ دو گواہوں یا محض قرائن سے بھی کام چل سکتا ہے۔ ۳/اگست کو ہمدرد سنٹر میں حدود قوانین پر علما کے اجلاس کے اعلامیہ کی ایک شق یہ ہے: ’’زنا بالرضا اور زنا بالجبر کی تقسیم کرکے زنا بالجبر کو حرابہ کے تحت داخل کرنا قرآن وسنت کی باطل تعبیر ہے۔ زنا کے لئے موجب ِحد نصابِ شہادت دستیاب نہ ہو اور اقرارِ جرم بھی نہ ہو لیکن کم تر شہادت یا قرائن قطعیہ غالبہ موجود ہوں اور قاضی کو ارتکابِ جرم کا ظن غالب یا یقین ہوجائے تو وہ مجرم کو تعزیراً انتہائی سزا بھی دے سکتا ہے۔‘‘ مختصراً اس تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام کی رو سے زنا بالجبر کی سزا اور نصابِ شہادت میں عام زنا سے کوئی فرق نہیں ، البتہ حالات کی سنگینی کے تحت قاضی اس میں فساد فی الارض کے جرم کو شامل کرسکتا ہے لیکن دونوں جرائم کو خلط ملط کرنے کی بجائے اُنہیں قرآنی سیاق میں ہی رہنے دیا جائے کیونکہ ہر دو نوعیت کے جرائم کے احکام،طریقہ ثبوت اور حکمتیں علیحدہ علیحدہ ہیں ۔ الغرض شریعت ِاسلامیہ کے موقف اور مجوزہ ترامیم میں دو اساسی فرق ہیں : 1. جرم کی بعض صورتوں میں دو تین جرائم کا ارتکاب ہوسکتا ہے مثلاً کسی واردات میں چوری اور زنا دونوں جمع ہوسکتے ہیں لیکن دونوں جرائم کی تفصیلات اپنی اپنی جگہ باقی رہتی ہیں ۔ جبکہ مجوزہ ترامیم میں زنا بالجبر کو ایک مستقل جرم قرار دے کر حرابہ بنایا جارہا ہے اور اس طرح زنا کو اس نصابِ شہادت اور سزا سے نکالا جارہا ہے جو اسلام نے مقرر کی ہے۔ یہ موقف درست نہیں ۔ مولانا عبد الرحمن مدنی کا محدث (شمارۂ جون) میں اس پر موقف شائع ہوچکا ہے : ’’زنا بالجبر کا جرم حرابہ سے کوئی تعلق نہیں ، زنا کی سزا قرآن وسنت میں واضح طورپر بیان کردی گئی ہے، اس میں سے زنا بالجبر کو خاص کرکے حرابہ کے تحت داخل کرنے کی کوئی دلیل کتاب وسنت میں موجود نہیں ، نہ خلفاے راشدین کے دور سے اس کی کوئی مثال ملتی ہے۔‘‘ (صفحہ:۴۱)