کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 3
عالیہ سے بھی نوازا کہ جلد از جلد اتفاقِ رائے پیدا کیا جائے۔ ملک کے معتبر اداروں کے ساتھ مذاق اور حدود اللہ میں دخل اندازی کی اس سے بڑی کوشش اور کیا ہوسکتی ہے ؟ حکومت ِوقت کے تیور بتاتے ہیں کہ اُنہیں موجودہ سیاسی کشمکش میں دینی تنظیموں اور عوامی وسیاسی جماعتوں سے تو اپنی حمایت کی اُمید نہیں لہٰذاپنے اقتدار کو مزید طول بخشنے اور اپنی سابقہ روایات کے مطابق ایک بارپھر مغرب نواز طبقہ کی کلی حمایت پانے کے لئے وہ حدود آرڈیننس کو قربانی کی بھینٹ چڑھانا چاہتے ہیں ۔ ایسے ہی امریکہ ویورپ کی ناراض حکومتوں کو بھی ان اسلام مخالف اقدامات کے ذریعے دوبارہ اپنی حمایت کے لئے آمادہ کرنے کی سعی ٔنامراد کی جارہی ہے۔ اس مقصد کے لئے حکومت نے ۱۴/اگست کو بعض ’خوش آئند‘ تبدیلیوں کے اعلان کی بھی نوید سنائی ہے۔ حدود قوانین کے خلاف موجودہ مہم کے تیور آغاز میں تو ایسے لگتے تھے کہ اس بار اِن قوانین کو منسوخ کرکے ہی دم لیا جائے گا، لیکن اسلامیانِ پاکستان کا اسلام سے محبت کا جذبہ ابھی اتنا سرد نہیں ہوا، اس لئے سردست یہی نظرآتا ہے کہ ان میں قانونِ توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح ایسی ترامیم بروئے کارلائی جائیں گی کہ ان کا نام تو برقرا ر رہے لیکن ان کا جوہر ختم ہو کررہ جائے۔ انہی دنوں اخبارات میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ترقی خواتین کی چیئرپرسن مہناز رفیع کا یہ بیان شائع ہوا ہے کہ ’’حدود قوانین میں ترامیم کی جارہی ہیں جس میں 1. زنا بالرضا اور زنا بالجبر کی سزاؤں میں تفریق کی گئی ہے۔ ترامیم کے مطابق زنا بالجبر کی سزا سزاے موت یا ۲۵ سال قید اور جرمانہ ہوگی، جبکہ زنا بالرضا کی سزا تعزیراتِ پاکستان کے تحت دی جائے گی۔ 2. ۴گواہوں کے لئے مرد گواہ کی شرط ختم کرتے ہوئے اب مرد کے ساتھ عورت کی گواہی کو بھی تسلیم کیا جائے گا۔ 3. ’موجودہ‘ قانون کے تحت درخواست سیشن کورٹ کے سامنے پیش کی جائے گی، اس کے بعد ۴ مرد وخواتین گواہوں کی شہادت کے بعدہی مقدمہ درج کیا جائے گا۔4. حدود قوانین میں بالغ لڑکی پر مقدمہ بنادیا جاتا تھا، جبکہ لڑکے کے لئے کم از کم ۱۸ سال کی عمرمتعین کی گئی تھی جبکہ اس عمر میں ذ ہنی بلوغت نہیں ہوپاتی چنانچہ ’موجودہ‘ قانون میں لڑکے اور لڑکی دونوں کے لئے عمر کا تعین ۱۸ سال کردیا گیا ہے۔ یہ ترامیم خواتین کے حقوق اور فلاح وبہبود کو مد نظر رکھتے