کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 28
وقالت ہو ہذا ولم یُنکر ولم یَحتج عن نفسہ فاتفق مجيء القوم بہ في صورۃ المریب وقول المرأۃ ہذا ہو وسکوتہ سکوت المریب(ج۶/ص ۲۳) ’’اگریہ اعتراض کیا جائے کہ پھر ایک بری شخص کے رجم کا حکم کیوں دیا گیا؟ تو کہا جائے گا: اگر وہ انکار کرتا تو اسکے رجم کا حکم نہ دیا جاتا۔ لیکن جب اسے پکڑا گیا اور عورت نے بھی کہہ دیا کہ یہی ہے وہ اور اس نے انکار بھی نہیں کیااو راپنے بارے میں کوئی حیل وحجت بھی نہیں کی پھر تمام لوگوں کا اسے مشکوک حالت میں پکڑ کر لانا، اس کے بعد عورت کا اسے متعین کردینا اور اس پر اس کا خاموش رہنا۔ ‘‘ (یہ واقعاتی حقائق گویا اسکے اعترا ف کی طرف ہی اشارہ کررہے ہیں ) الغرض 1. اوّل تو اس مکمل واقعہ کی صحت ہی مشکوک ہے۔2. پھراس واقعہ میں رجم کی سزا کا سنایا جاناثابت شدہ ہی نہیں ۔3. بالفرض ثابت شدہ مان بھی لیا جائے تو یہ ایک تفتیشی مرحلہ کا بیان ہے کیونکہ زنا کاالزام چار گواہیوں کے بغیر ثابت نہیں ہوتا۔ 4. اگر کسی کو پھر بھی حکم رجم پر اصرار ہو تو اس سزا کو سنانے کی وجہ اس شخص کی الزام پر خاموشی گویا اعتراف کرنا ہے، نہ کہ محض عورت کا الزام لگا دینا۔5. اور آخرکار تمام احادیث میں یہ بات موجود ہے کہ اس کو رجم کی سزا دی نہیں گئی، بلکہ سب کو معاف کردیا گیا جس کی وجہ یہ ہے کہ زنا کی گواہیاں پوری نہ ہونے کی وجہ سے یہ کیس حدود اللہ سے نکل کر عام جرائم میں آگیا تھا، جہاں قاضی معافی دے سکتا ہے۔ زنا بالجبر کی صورت میں ’زنا‘ اور ’حرابہ‘ میں ادغام یا اشتراک؟ چونکہ زیر بحث ترامیم میں زنا بالجبر ہی خصوصی موضوع رہا ہے، اس لئے جوواقعات میڈیا پر پیش کئے جاتے رہے، ان کے بارے میں اسلام کا موقف بالاختصار واضح رہنا چاہئے: اسلام میں زنا ایک سنگین جرم ہے اور کسی کو اعتراف یا چار گواہوں کے بغیر زنا کی سزا نہیں دی جاسکتی جیسا کہ مغیرہ رضی اللہ عنہ بن شعبہ کے سلسلے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مشہور واقعہ موجود ہے۔ البتہ زنا بالجبر ایسی صورت ہے جہاں دوجرائم باہم خلط ملط ہوجاتے ہیں ، اس کی چار صورتیں بنتی ہیں جن میں پہلی تینوں صورتیں ایسی ہیں جہاں چاروں گواہیاں موجود ہیں : 1. زنا بالجبر کی عام صورتوں میں زانی کو ۱۰۰ کوڑے یا سنگساری کی سزا ہی دی جائے گی، جیسے کہ آغاز میں واقعات گزرچکے ہیں ۔ دیکھیں صفحہ نمبر۱۰ پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ وعمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے