کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 27
’حسن‘ دون قولہ ارجموہ والأرجح أنہ لم یُرجم ( سنن ابو داود:۳۶۸۱ ’صحیح‘)
’’یہ حدیث حسن(مقبول) ہے سوائے رجم کے حکم کے(جو ثابت شدہ نہیں ہے) راجح بات یہی ہے کہ اسے رجم نہیں کیا گیا ۔ ‘‘ (مزید تفصیل:السلسلۃ الصحیحۃ از شیخ البانی : رقم ۹۰۰)
حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی رجم کے حکم کو راوی کا تصرف قرار دیا ہے۔(الطرق الحکمیۃ : ۸۴)
3. سنن ابو داؤد کی شرح عون المعبود کے شارح اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں :
ولایخفی أنہ بظاہرہ مشکل إذ لایستقیم الأمر بالرجم من غیرإقرار ولا بینۃ وقول المرأۃ لا یصلح بینۃ بل ہي التي تستحق أن تُحد حد القذف فلعل المراد: فلما قارب أن یأمر بہ وذلک قالہ الراوي نظرًا إلی ظاہر الأمر … والإمام اشتغل بالتفتیش عن حالہ۔
(ج۱۲/ص۲۸)
’’ظاہر ہے کہ یہ ایک پیچیدہ حدیث ہے کیونکہ رجم تو اعتراف یا گواہیوں کے بغیر ثابت نہیں ہوتا۔ اور عورت کا محض کہہ دینا کافی گواہی نہیں ہے بلکہ چاہئے تو یہ تھا کہ اس بنا پر عورت کو حد قذف لگائی جاتی۔شاید اس سے مراد یہ ہو کہ ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم سنانے ہی والے تھے اور راوی نے ظاہری حالات کے پیش نظر یہ بات از خود روایت کردی ہے، حالانکہ اس دوران حاکم ابھی تفتیشی مراحل میں ہی مشغول تھا۔‘‘
بالفرض رجم کا حکم ثابت ہو بھی ہوجائے تو اس واقعہ کی مکمل تفصیلات جو مسند احمد اور سنن بیہقی وغیرہ میں ذکر ہوئی ہیں ، سے بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس واقعہ میں رجم کا حکم سنانا ایک تفتیشی مرحلہ ہی تھاکہ آپ نے ایک عورت کی شکایت پر الزامات کی تحقیق شروع کردی لیکن آخر کار اس واقعہ میں کسی شخص کو بھی رجم کی سزا دی نہیں دی گئی۔ (سنن بیہقی: ۸/۲۸۴)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رجم کایہ حکم اس واقعہ کے مشابہ ہے جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے دو عورتوں کے درمیانبچے کا فیصلہ کرنے کے لئے بچے کو کاٹنے کا حکم سنایا تھا لیکن اس کو کاٹا نہیں تھا۔
4. بفرضِ محال اگر رجم کا حکم دینا مان بھی لیا جائے تواس کی وجہ محض ایک عورت کے الزام کی بجائے دراصل ملزم کی خاموشی یعنی اعتراف ہے، وگرنہ اس کے انکار کرنے کا احادیث میں تذکرہ ملنا چاہئے۔ حافظ ابن قیم اعلام الموقعین میں فرماتے ہیں :
فإن قیل: کیف أَمر برجم البريئ؟ قیل: لو أنکر لم یَرجمہ ولکن لما أُخذ