کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 25
ظالم مرد کو سزا دلوانا چاہتی ہو تو اس کی گواہی کو حدود قوانین میں کوئی وقعت نہیں دی جاتی۔
دراصل عورت سے جبری زنا ایسی زیادتی ہے جس پر ہر غیرت مند مسلمان متاثرہ عورت سے شدید ہمدردی محسوس کرتا ہے۔ ہمدردی اور غمخواری اپنی جگہ لیکن عدل وانصاف کے فیصلے جذبات سے ہٹ کر واضح میزان پر ہی کئے جاتے ہیں ۔ جس طرح کسی بھی جرم میں محض ایک متاثرہ شخص کا ملزم پر محض دعویٰ کردینا کافی نہیں بلکہ اسے قانونی تقاضے بھی پورے کرنا ہوتے ہیں ، ایسے ہی یہاں بھی توازن کا دامن نہیں چھوٹنا چاہئے۔ یہ درست ہے کہ جبری زنا کی شکار عورت ہوتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ محض عورت کے بیان کو ہی میزانِ عدل قرار دے لیا جائے۔ متعدد واقعات ایسے ملتے ہیں جن میں عورت محض مرد کو بدنام کرنے کی غرض سے اس پر ایسا الزام لگا دیتی ہے۔ جیسا کہ ایسا ہی ایک واقعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر فرمایا:
’’بنی اسرائیل میں جُریج نامی ایک نیک آدمی نے ایک بار ماں کی بات نہ مانی تو اس کی ماں نے اسے بدنامی کی بددعادی۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک روزایک عورت نے اسے بدکاری کی دعوت دی، اس نے انکار کیا تو اس عورت نے ایک چرواہے سے بدکاری کرکے پیدا ہونے والے بچے کو جریج کے نام مڑھ دیا۔ لوگوں نے یہ صورتحال دیکھ کر اس کی عبادت گاہ توڑ دی اور اس کو خوب بدنام کیا۔ تب جریج نے نماز پڑھ کر اللہ سے اپنی صفائی کی دعا کی، تو اللہ نے اس پیدا ہونے والے بچے کو بولنے کی صلاحیت دے دی او راس نے کہا کہ ’’میرا باپ تو فلاں چرواہا ہے۔‘‘ یہ بچہ ان تین بچوں میں سے ایک تھا جنہوں نے گود میں بولنا شروع کردیا، دوسرے حضرت عیسیٰ ہیں ۔‘‘ مختصراً (صحیح بخاری: ۳۴۳۶،۲۴۸۲)
مسلم فقیہ محمد فاسی مالکی لکھتے ہیں کہ کوئی عورت اگر یہ دعویٰ کرے کہ اس سے زنا بالجبر ہوا ہے ، اور اس کے پاس کوئی گواہ نہ ہو تو ا س صورت میں دیکھا جائے گا کہ
أن تدعي ذلک علی رجل صالح لا یلیق بہ ذلک وہي غیر متعلقۃ بہ فہذا لا خلاف أنہ لا شیء علی الرجل وإنہا تحد لہ حد القاذف وحد الزنا إن ظہر بہا حمل (الاتقان والإحکام: ۲/۲۶۱)
’’اگر تو جس پر الزام لگایا جارہا ہے ، وہ نیک شخص ہو اور ایسا فعل بد اس کے لائق نہ ہو اور اس عورت کا اس سے کوئی تعلق بھی نہ ہو تو سب کا اس امرپر اتفاق ہے کہ اس آدمی کو کوئی سزا نہیں