کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 24
خاتون کو تلاش کرتے یا اس کی پکار سنتے ہوئے چند لوگ تاخیر سے پہنچیں ۔ کسی خاندان سے دیرینہ دشمنی کا بدلہ لینے یا اس کی عزت خاک میں ملانے کے لئے بعض اوقات کچھ شیطان صفت لوگ اسلحہ کے زور پر زنا کا ارتکاب کرتے ہیں اور لوگ اُنہیں روکنے پر قدرت نہیں رکھتے۔ بعض اوقات ڈاکوبھی ایسی وارداتیں کرتے ہیں کہ اہل خانہ کو زنا سے روکنے کی مجا ل نہیں ہوتی بلکہ پاکستان کے قبائلی نظام میں بعض جرگے بھی متاثرہ فریق کو زنا کی اجازت دے کر اپنے سامنے ایسے ظالمانہ فیصلے پرعمل کرواتے ہیں ۔ اس لئے یہ دعویٰ بھی درست نہیں کہ زنا بالجبر میں چار گواہوں کا ملنا ناممکن ہے۔ 2. یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ کوئی عورت اپنے آپ پرزنا بالجبر کا مقدمہ لے کر جاتی ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ تم اپنی بریت پر چار گواہ پیش کرو، وگرنہ خود سزا بھگتو۔ حدود قوانین میں تو ایسی کوئی شق موجود نہیں ، اسی لئے شرعی عدالت کے فیصلے یا سزا سنانے کے مرحلے میں بھی کبھی اس کا اتفاق نہیں ہوا، جسٹس تقی عثمانی اپنے کتابچہ میں لکھتے ہیں کہ ’’ایسے کیسوں کی سترہ سالہ سماعت کے دوران مجھے کوئی ایسا کیس یاد نہیں جس میں کوئی عورت زنا بالجبر کی شکایت لائی ہو اور مرد کو چھوڑ کر خود اسے زنا بالرضا کی سزا سنادی گئی ہو۔‘‘ (ص ۱۹) البتہ پولیس کی دھاندلی یا عدمِ تربیت کے نتیجہ میں اس کا امکان بعید از قیاس نہیں ۔ اس کے لئے حدود قوانین کی بجائے پولیس کی اصلاح اور تربیت ضروری ہے۔ وفاقی شرعی عدالتنے بھی اپنے ایک فیصلہ میں یہ قرار دیا کہ ’’اگر کسی عورت کو زنا پر مجبور کیا جائے تو اس جرم کے سرزد ہونے کے بعد زیادتی کی شکار عورت کو کسی طرح کی سزا نہیں دی جاسکتی۔ چاہے وہ حد ہو یا تعزیر، البتہ دوسرا فریق جو زیادتی کا مرتکب ہوا ہے، وہ نفاذ یا تعزیری سزا کا مستحق ہے۔‘‘ ( پی ایل ڈی، ۲۰۰۲، FSC،صفحہ۱) جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو اسلام نے تو عورت پر جبر کی صورت میں متاثرہ عورت کی بریت کے لئے محض اس کے بیان اور قرائن کی شرط لگائی ہے اور جبر ثابت ہونے کی صورت میں ظالم پر مہر مثل کی ادائیگی یا ایک تہائی دیت اور قاضی کو عورت کی دل جوئی کی ہدایت کی ہے جس کی تفصیل پیچھے صفحہ نمبر ۸ کے حاشیہ میں گزر چکی ہے۔ 3. یہ بھی اعتراض کیا جاتا ہے کہ اگر زنا بالجبرمیں متاثرہ عورت اپنی بریت سے بڑھ کر