کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 22
حدود آرڈیننس میں صرف اس ایک شق پر اعتراض کیا جاتا ہے ۔‘‘ (انٹرویو، ص ۳۲) زنا بالجبر میں عورت کی گواہی ٭ شہادتِ نسواں کے حوالے سے ترمیم پر بحث کے خاتمے سے قبل ان اعتراضات کو بھی ایک نظر دیکھ لینا مفید ہوگا جو میڈیا پر زنا بالجبر کے سلسلے میں خواتین کی گواہی کے حوالے سے تسلسل سے دہرائے جاتے رہے ہیں ، مثلاً 1. حدود قوانین کا زنا بالجبر کی صورت میں چار گواہوں کا تقاضا عملاً ممکن نہیں ہے کیونکہ زنا بالجبر عموماً اکیلے ہوتا ہے، چند افراد کی موجودگی میں جبری زنا کا امکان ہی باقی نہیں رہتا۔ اوّل تو یہ دعویٰ حدود قوانین پر محض الزام ہے کیونکہ حدود قوانین نے زنا بالجبر کے لئے چار گواہ ضروری ہی قرار نہیں دیے، ان قوانین میں زنا٭ بالرضا اور زنا بالجبر کی سزا تعزیری ہے جس میں عام گواہیاں ویسے ہی قابل قبول ہیں ۔ چار گواہوں کی ضرورت تو زنا کی شرعی سزا میں ہے اور شرعی سزا میں زنا بالجبر کو بحث میں ہی نہیں لایا گیا۔یہی وجہ ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کے کئی فیصلے موجود ہیں ، جن میں زنا بالجبر کیلئے چار گواہوں کی ضرورت کو اضافی قرار دیا گیا ہے، مثلاً 1. قانونِ شہادت ۱۹۸۴ کے آرٹیکل ۱۷ کی ذیلی دفعہ’ ۲ بی‘ میں صراحت کی گئی ہے کہ ’’حد زنا کے نفاذ سے قطع نظر، زنا کے مقدمے میں عدالت ایک مرد یا ایک عورت کی گواہی پر تعزیر کی سزا دے سکتی ہے۔ (یاد رہے کہ یہ سزا ۱۰ سے ۲۵ سال قید بامشقت اور جرمانہ ہے)‘‘ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ۱۰ سال سزا زنا بالرضا کی ہے اور ۲۵ سال زنا بالجبر کی ہے، تو گویا قانونِ شہادت کی یہ دفعہ دونوں کو شامل ہے۔ 2. عدالت کو یہ بھی اختیارات حاصل ہیں کہ وہ اگر مناسب سمجھے تو جرمِ زنا کے اثبات کے لئے گواہوں کی تعداد اوراہلیت کے متعلق بھی فیصلہ کرے۔ عدالت ِعالیہ نے ایک مقدمہ میں اس اُصول کی حسب ِذیل الفاظ میں صراحت کی ہے : ’’قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ مقدمہ کے حالات و واقعات کے پیش نظر گواہوں کی تعداد اور ٭ جیسا کہ ہم ذکر کرچکے ہیں کہ حدود قوانین میں زنا کی یہ دوقسمیں (زنا بالرضا اور زنا بالجبر) حدود اللہ کی بجائے تعزیراً مقرر کی گئی ہیں۔اور شرعاً محتاط رویہ یہی ہے کہ انہیں زنا سے موسوم کرنے کی بجائے مبادیاتِ زنا یا فحاشی وسیاہ کاری وغیرہ سے موسوم کیا جائے اور عدالتی فیصلوں وغیرہ میں بھی یہ لفظ اسی مفہوممیں سمجھا جائے۔