کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 19
ہوں لیکن اسلامی معاشرے الحمدللہ ابھی تک اس صنفی کشمکش اور تناؤ سے آزاد ہیں ۔
جبکہ پاکستان میں عدالتوں کی موجودہ صورتحال اورسماعت کی طوالت کے باعث یہ ذمہ داری تو کوئی مرد بھی ادا کرنے کے لئے آمادہ نہیں ٭ کجا یہ کہ اسے عورتوں پر بھی عائد کردیا جائے۔
٭ یہ تو اس الٰہی حکم کی توجیہات ہیں ، وگرنہ مؤمن مردوزَن کے لئے قرآن اور فرامین نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بہت کافی ہیں ، قرآنِ کریم میں زنا کے سلسلے میں صرف مرد گواہوں کا تین بار تذکرہ ہوا ہے :
﴿وَالّٰتِیْ یَأْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَائِکُمْ فَاسْتَشْہِدُوْا عَلَیْہِنَّ أَرْبَعَۃً مِّنْکُمْ﴾
’’جو عورتیں فحاشی کا ارتکاب کریں تو ان پر چار گواہ پیش کرو۔‘‘ (النساء:۱۵)
﴿وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَأْتُوْا عَلَیْہِ بِأَرْبَعَۃِ شُہَدَائَ﴾ (النور:۴)
’’وہ لوگ جو پاکدامن عورتوں پر الزام تراشی کرتے ہیں اور چار گواہ بھی پیش نہیں کرتے…‘‘
اور عدد معدود کے مسلمہ عربی قاعدے کی رو سے ۳ سے ۱۰ تک کا ’اسم عدد‘ اگر مؤنث ہو تو معدود لازماً مذکر ہوگا، چنانچہ سورۃ النور کی آیت میں أربعۃ شہدائ میں أربعۃ مؤنث ہے لہٰذا اس سے مذکر گواہ ہی مراد ہوں گے۔ایسے ہی سورۃ البقرۃ کی آیت أربعۃ منکم میں بھی أربعۃ اور منکم ہردو سے یہی دلیل ملتی ہے اور اسی مفہوم پر مفسرین کا اتفاق ٭ہے ۔
٭ اس سلسلے میں احادیث ِنبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے کہ ہلال بن اُمیہ رضی اللہ عنہ نے شریک بن سحماء پر اپنی بیوی سے زنا کاری کا الزام لگایا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( أربعۃ شہداء وإلا فحد في ظہرک)) (سنن نسائی:۳۴۶۹ ’صحیح‘)
’’چار گواہ لاؤ، وگرنہ تیری پیٹھ پر(تہمت کی) حد لگے گی۔‘‘
٭ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی کو زنا کرتا پاؤں تو کیا میں اس کو مہلت دوں حتی آتي بأربعۃ شہداء فقال رسول ﷲ: نعم (مسلم: ۱۴۹۸)
’’حتیٰ کہ میں چار مرد گواہ لاؤں ؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ہاں ۔‘‘
٭ اس بارے میں خلفاے راشدین رضی اللہ عنہم اورتابعین رحمۃ اللہ علیہ کے فرامین وواقعات ملاحظہ فرمائیں ، مثلاً
٭ گواہی ایک ذمہ داری ہے۔ چونکہ لوگ اس سے گریز کرتے ہیں، اسی لئے اس کی ترغیب پر یہ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھی موجو د ہے:’’ بہترین گواہ وہ ہے جو طلب کرنے سے پہلے ہی گواہی کے لئے چلا آئے۔‘‘(مسلم:۱۷۱۹)
٭’مسئلہ شہادتِ نسواں اورغامدی نظریات‘ از حافظ صلاح الدین یوسف (محدث: جنوری ۱۹۹۲ء،ص ۹۶)