کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 18
کی عملی تفصیلات میں ان کی فطری شرم وحیا کا حائل ہونا ایسی رکاوٹ ہے جس کی وجہ سے اسلام نے عورت کو مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ اس پیچیدگی کی بنا پر مجرم کے بچ نکلنے کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔ اس سلسلے میں امان اللہ بلوچ ایڈوکیٹ کا عدالتوں کا عملی تجربہ ملاحظہ فرمائیے: ’’ہماری ایک ثقافت ہے، ہوسکتا ہے برگر خاندانوں سے تعلق رکھنے والی چند خواتین اتنی بے باک ہوں کہ اپنا بیان نارمل طریقے سے دے پائیں مگر ہمارے معاشرے کی ۹ئ۹۹ فیصد خواتین کی بالکل الگ سوچ ہے۔ وہ اپنی روایات اور ثقافت کی پاسداری کرنے والی اور شرم وحیا کی پیکر ہوتی ہیں ۔ ان کے لئے مردوں سے بھرے عدالتی چیمبر میں اورچارچار وکیلوں کی موجودگی میں اس ظلم کی باریکیاں بیان کرنا کسی پہاڑ سے ٹکرانے سے زیادہ مشکل امر ہے۔‘‘ (کتابچہ’ حدود قوانین اور این جی اوز‘ مرتب ڈاکٹر عبد اللہ خان:ص۱۲) زنا کی شہادت میں فعل زنا کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا ضروری ہے، وگرنہ گواہ پرتہمت کی سزا عائد ہوگی جیساکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مغیرہ رضی اللہ عنہ بن شعبہ کے واقعہ میں اسی بنا پر حد ِقذف لگائی۔ یہی وجہ ہے کہ حدود میں عورت کی گواہی کی راہ اختیار نہیں کی گئی اور یہی وجہ مسلم فقہا نے ذکر کی ہے کہ تقع في جو قذر مخز لا تتمکن المرأۃ غالبًا فیہ من الاستعداد لتحمل الشہادۃ کما یقع في جریمتي الزنا واللواط حیث یشترط في الشہادۃ رؤیۃ المیل في المُکحلۃ (شہادۃ المرأۃ في الفقہاز ڈاکٹر عبد اللہ مطلق:ص ۶۶) ’’ گواہیاں ایسے مکدر اور شرمناک ماحول میں ہوتی ہیں جہاں خواتین کا عمل ِزنا کی گواہی دینے کا امکان باقی نہیں رہتا۔ جیسے کہ زنا اور لواطت کے جرائم کا تعلق ہے کیونکہ ان کی گواہی میں سرمہ والی لکڑی (سرمچو) کا سرمہ دانی میں داخل ہونے کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی شہادت دینا ضروری ہے۔‘‘ (ناشر کتاب: دار المسلم، ریاض ) ٭ پھریہ بھی واضح رہنا چاہئے کہ گواہی کوئی حق نہیں بلکہ ایک ذمہ داری ہے۔ حق تو وہ ہے جس کا فائدہ اپنی ذات کو پہنچے اور ذمہ داری وہ جس کو ادا کرکے دوسروں کو فائدہ پہنچایا جائے۔ غور طلب امر یہ ہے کہ گواہی دینے والی عورت کو گواہی دے کر کیا فائدہ پہنچتا ہے۔ ممکن ہے کہ مغرب میں جہاں جدید تحریک ِنسواں کے بعد بعض تجدد پسند عورتیں مل کر اپنے آپ کو ایک مجسم اکائی خیال کرتی ہوں اور اپنے بالمقابل مردوں کو ایک جنس ظالم باور کرکے ایک اکائی بتاتی