کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 17
نہیں رکھاجاسکتا۔ ان کی حیثیت زیبائشی اور آرائشی قوانین کی ہوتی ہے۔یہ منافقت اس لئے ضرور ی ہے کہ ہم علما کو بھی ناراض نہیں کرسکتے لیکن اسلامی قانون کو مؤثر بھی نہیں کرسکتے۔ ‘‘ (دیکھئے کتاب ’اسلامی تہذیب بمقابلہ مغربی تہذیب‘ میں انٹرویو ، ص ۸۴)
اس ترمیم میں ایک طرف بدکاری پر قانون در قانون پیش کرکے سزا کو اُلجھایا گیا ہے، اور بظاہر حدود اللہ کو برقرار دکھانے کی سعی کی جارہی ہے تو دوسری طرف پھر نصابِ شہادت کے لئے قرآن وسنت سے متصادم ترمیم اس میں شامل ہے کیونکہ اسلام نے حدود میں عورتوں کی گواہی کا راستہ تو سرے سے اختیار ہی نہیں کیا۔
اسلامی شریعت میں شرعی حد زنا کے سلسلہ میں عورتوں کی شہادت کی گنجائش نہیں ۔یہاں مرد وزن کی مساوات کو خلط ملط کرنے اور آدھی عورت کے جذباتی نعرے لگانے کی بجائے پہلے اسلامی موقف کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اسلام نے مرد وزَن کو مساوات کے نام پر ایک دوسرے کا حریف ومقابل بنانے کی بجائے دونوں صنفوں میں تقسیم کار کا تصور دیا ہے۔ اگردونوں صنفوں کے کام بھی ایک جیسے ہی ہوں تو پھر دوسری صنف کو پیدا کرنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔
اسلام نے عورت کی گواہی کو آدھا نہیں کیا بلکہ مردوں کے معاملات میں اور جہاں شرم وحیا آڑے آجائے، وہاں مردوں کی گواہی کو رواج دینے کی ترغیب دی ہے جبکہ عورتوں کے معاملات میں ان کی گواہی کو مردوں سے بھی زیادہ حیثیت دی ہے۔ مثال کے طورپر دنیا بھر کے تما م مسلمان اپنی ماں کی اکیلی شہادت پر اپنے باپ کی ولدیت کا یقین کرتے ہیں ۔ ایسے ہی رضاعت، حیضوغیرہ میں عورت کی اکیلی گواہی مردوں سے زیادہ معتبر حیثیت رکھتی ہے۔ (صحیح بخاری:۸۸،المغنی: ۱۴/۱۳۴، الطرق الحکمیۃ: ص ۷۲، تفصیلات :ولایۃ المرأۃ : ص۲۸۷)
اسلام نے عورتوں کو حدود کے معاملات میں گواہی دینے کا رویہ اس لئے نہیں اپنایا کہ اسلام کی رو سے یہ دائرۂ عمل عورتوں کی حرمت وتقدس کے خلاف ہے کیونکہ گواہوں کیلئے فعل زنا کی عملی تفصیلات پیش کرنابھی ضروری ہے ،ا سکے بغیرگواہی مکمل نہیں ہوتی۔(فقہی انسا ئیکلو پیڈیا: ج۲۴/ص۳۹) عورتوں کا عدالتوں میں آنا جانا اور وہاں وکلا کی شدید جرح کے بالمقابل جرمِ زنا