کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 16
کیا گیا ہے اور اسی تقسیم کو اصل بنایا جارہا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مزید قانون کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی، دوسری طرف حدود قوانین میں زنا کو دوبارہ شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کے لحاظ سے (یعنی اسلامی شریعت کے طورپر)بھی تقسیم کیا جارہا ہے تاکہ مسلمان بھی مطمئن رہیں اور کوئی اعتراض نہ ہوسکے لیکن عملاً یہ قانون در قانون کی ایک صورت ہے کیونکہ ایک واقعہ زنا بالرضا کے تحت آئے گا جہاں تعزیراتِ پاکستان میں اس کے لئے کوئی سزا نہیں تو دوسری طرف وہ ترمیم شدہ حدود آرڈیننس کے تحت شادی شدہ ہونے کی وجہ سے سنگساری کا مستحق بھی ہوگا، اب اس پرکس قانونی دفعہ کو لگایاجائے، اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ ایسے ہی ایک واقعہ زنا بالجبر کا ہو اور دوسری طرف زانی کنوارا ہو تو اس صورت میں تعزیراتِ پاکستان کی رو سے تو وہ سزاے موت کا مستحق لیکن حدود آرڈیننس کی رو سے وہ ۱۰۰ کوڑوں کا مستحق ہوگا۔ تضادات سے بھرپور یہ قانون سازی آخر کیوں ؟ اس طرح جرمِ زنا کی سزا عائد کرنا تو ایک معمہ بن جائے گا سمجھنے ، نہ سمجھانے کا!!
ممکن ہے کہ یہی اعتراض موجودہ حدود قوانین پر بھی کیا جائے کہ وہاں بھی سزاؤں کے دو معیار مقرر کئے گئے ہیں ، لیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ پہلے تو اسی نکتہ پر ترمیم کے خواہش مند اعتراض کرتے تھے، اب خود اسی ثنویت کو اختیار کرتے ہیں تو وہ درست قرار پاتی ہے۔ علاوہ ازیں حدود قوانین میں دونوں سزاؤں میں باہم تضاد نہیں بلکہ جرم کی کمی بیشی کے اعتبار سے ان کی شدت میں بھی کمی بیشی ہے، اور دونوں سزاؤں میں حد فاصل اور میزان وہ نصابِ شہادت ہے جس کی رو سے زنا کی شرعی سزا تب ہی دی جاسکتی ہے جب عملاً وقوعہ زناکی شہادت موجود ہو، وگرنہ نسبتاً کمتر سزا جو دراصل مبادیاتِ زنا کی سزا ہے، دی جاتی ہے۔ جبکہ مجوزہ ترامیم میں نہ وہ حد فاصل موجود ہے اور دونوں سزاؤں میں کمی بیشی کی بجائے تضاد بھی پایا جاتا ہے۔
اسلام کے نام پر پاکستان میں جاری کئے جانے والے قوانین عموماً اسی قسم کے مسائل اور تضادات سے پر ہیں جس کی وجہ سے ان پر عمل بھی نہیں ہوپاتا، ایسے قوانین کو بظاہر نافذ کرنے کی ضرورت قانون کے ایک بھیدی جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال کی زبانی سنئے:
’’مذہبی لوگوں کو راضی رکھنے کیلئے ہمیں قانون تو بنانے پڑتے ہیں لیکن ان کو مؤثر اور قابل عمل