کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 15
(جہاں اس حوالے سے کوئی قانون ہی نہیں ہے) ملحدانہ معاشرت کو دعوت دی جارہی ہے۔ کیا یہی ہے وہ مقصد اور منزل جس کے لئے کئی ماہ سے جیو نے عوام کو ’ذرا سوچئے‘ اور پارلیمنٹ کو ’کب سوچنے‘ کی دہائی مچا رکھی تھی…؟ پہلی ترمیم کی توجیہ پر ایک نظر: آخر میں اس ترمیم کی توجیہ پر بھی نظر ڈال لینا مناسب ہوگا : ’’ہر ایسا جرم جس کی سزا قرآن وسنت میں بیان نہیں کی گئی، اس کو حدود آرڈیننس سے نکال لیا جائے۔ زنا کی تعزیری سزاؤں کو بھی اسی لئے حدود آرڈیننس سے نکال دیا گیا ہے اور زنا بالجبر کے قوانین کو تعزیراتِ پاکستان میں ’ریپ‘ کے نئے نام سے شامل کیا گیا ہے۔‘‘ (روزنامہ ’اُمت‘ کراچی:۴/اگست۲۰۰۶ء ) تبصرہ:معلوم ہوا کہ زنا بالجبر کو بھی حدود قوانین سے اس لئے نکالا گیا کہ بزعم خودیہ قرآن وسنت میں موجود نہیں جبکہ قرآن نے زنا کی سزا کو بھی بیان کیا ہے اور سنت ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی شدہ کے لئے رجم کی سزا بھی ثابت شدہ ہے۔ پھر جن لوگوں کے نزدیک زنا بالجبر حرابہ کی ایک قسم ہے، ان کے نزدیک بھی یہ آیت ِحرابہ (المائدۃ:۳۲) کے تحت آتا ہے۔ اس بنا پر یہ غلط بیانی اور ’عذرِ گناہ بد تر از گنا ہ‘ کے مصداق ہے۔ دراصل یہ توجیہ حدود قوانین میں موجود تعزیری سزاؤں کو نکالنے کے لئے پیش کی گئی ہے۔ کیونکہ اگر کسی وقوعہ پر چار گواہ نہ ملیں تب بھی کم تر شہادت پر بعض تعزیرات مبادیات زنا کے طورپر لاگو ہو جاتی ہیں ، چنانچہ ان تعزیرات کے خاتمے کے لئے بھی یہ توجیہ کردی گئی ہے تاکہ زنا کے نام سے کوئی قابل سزا جرم باقی ہی نہ رہے۔یہ ہے وہ عقل عیار جو قرآن وسنت اور حدود اللہ سے کھیلنے کے لئے ہی حرکت میں آتی ہے۔اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرمائے! دوسری مجوزہ ترمیمبہ سلسلہ شہادت ’’حدود آرڈی نینس میں صرف زنا کی حدکے تحت سزا شامل ہوگی جو شادی شدہ مجرموں کے لئے رجم اور غیر شادی شدہ مجرم کے لئے کوڑوں پر مشتمل ہوگی۔حد زنا کے لئے چارمرد گواہوں کی شرط ختم کرتے ہوئے اب مرد کے ساتھ عورت کی گواہی کو بھی تسلیم کیا جائے گا۔ اس کے لئے قانونِ شہادت ۱۹۸۴ء میں ترمیم کی جارہی ہے۔ ‘‘ تبصرہ:حالیہ ترامیم باہم متناقض ہیں ۔ ایک طرف زنا کو دو اقسام:جبر اور رضا میں تقسیم