کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 14
اسی دفعہ میں بھی یہ صراحت موجود ہے کہ یہ زنا بالجبر کے بارے میں نہیں اور تعزیراتِ پاکستان میں زنا بالجبر کے لئے مستقل علیحدہ دفعہ ۳۷۵ بھی موجود ہے، تو واضح ہے کہ تعزیرات پاکستان کی یہی وہ دفعہ ہے جو زنا بالرضا کے بارے میں مجوزہ ترامیم کے بعد مؤثر ہوجائے گی… یاد رہنا چاہئے کہ پاکستان میں پہلی بار حدود قوانین نے زنا کو قانونی طورپر ناجائز قرار٭ دیا تھا، ۱۹۷۹ء سے پہلے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں زنا کے راستے میں محض اسلامی یا معاشرتی وسماجی رکاوٹ حائل تھی… دوسری طرف حدود قوانین نے زنا کی یہ تعریف کی :
’’دفعہ ۴: ایک مرد یا عورت جو جائز طورپر آپس میں شادی شدہ نہیں ہیں ، زنا کے مرتکب ہوں گے، اگر وہ بلاجبر واِکراہ ایک دوسرے کے ساتھ مباشرت کرتے ہیں ۔‘‘
چنانچہ اگر زنا بالرضا کو حدود قوانین کی بجائے دوبارہ مجموعہ تعزیراتِ پاکستان کے تحت کردیا جائے تو گویا حدود آرڈیننس کے اصل امتیاز اور بنیادی ضرورت واہمیت کا ہی خاتمہ ہوجاتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کنواری، بیوہ یا مطلقہ اگر زنا کا ارتکاب کریں تو اُنہیں زنا کا مجرم قرار ہی نہیں دیا جاسکتا۔ اگر بیوی شوہر کی رضامندی سے زنا کا ارتکاب کرے تو اس صورت میں بھی یہ زنا نہیں ٹھہرتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ زنا بذاتِ خود جرم نہیں بلکہ شوہر کی عدم رضامندی کی صورت میں ہی جرم قرار پاتاہے۔ پھرشوہر ہی اس کے خلاف مقدمہ درج کراسکتا ہے ، ہر مسلمان نہیں ۔ علاوہ ازیں تعزیراتِ پاکستان میں یہ جرم قابل راضی نامہ اور قابل ضمانت بھی ہے۔ اگر زنا پر سزا ہو بھی جائے تو وہ محض ۵ سال یا جرمانہ ہے ۔صنفی امتیاز کی حد یہ ہے کہ اگر مرد کو ان تمام شرائط کو ملحوظ رکھنے کے بعد سزا کا مستحق بنا بھی دیا جائے تب بھی عورت کو بطورِ ترغیب دینے والی کے کوئی سزا نہیں دی جاسکتی۔
اب آپ خود غور کرلیں کہ اگر حدود قوانین میں یہ ترامیم کردی جاتی ہیں جو دراصل محض ترمیم کا نام، دراصل حدود قوانین کی منسوخی ہے تو اس کے بعد معاشرے میں زنا کاری پر کوئی قانونی قدغن باقی نہیں رہے گی۔ چونکہ ہماری این جی اوز اور مقتدر طبقہ کے فکر ونظر کے پیمانے مغرب سے مستعار ہیں ، اس لئے زنا بالرضا کو دوبارہ تعزیراتِ پاکستان کے حوالے کرکے
٭ دیکھئے کتابچہ ’حدود قوانین ؛موجودہ بحث ‘ از جسٹس تقی عثمانی شائع کردہIPS، ص ۱۹