کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 13
دراصل زنا بالجبر کو حرابہ میں لے جانے کی وجہ ہی یہ ہے کہ اس موقف کے قائل حد رجم کے منکر ہیں ۔ حد رجم کے ان منکرین کا زنا بالجبر پر سزاے موت کا یہ موقف بھی ان کے سابقہ موقف کی طرف سبیل المومنین او راجماعِ اُمت سے انحراف ہے !! مذکورہ بالا تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ حدود قوانین میں تبدیلی کا نام لے کر حدود اللہ میں ترمیم کی جسارت کی جارہی ہے اور اس طرح کھلے عام کتاب وسنت کے خلاف قانون سازی اللہ سے بغاوت اور دستورِ پاکستان کی واضح دفعات کی خلاف ورزی ہے۔ ٭ جہاں تک زنا بالرضا کی سزا کو مجموعہ تعزیراتِ پاکستان کے مطابق کرنے کی بات ہے تو یہ اسلام کے ساتھ صریح زیادتی، نظریۂ پاکستان سے انحراف او رمسلمانانِ پاکستان پر واضح ظلم ہے۔کیونکہ تعزیراتِ پاکستان میں زنا بالرضا بذاتِ خود کوئی جرم نہیں ، یہ قانون چونکہ انگریز کے دور سے چلا آتا ہے، اور انگریزکے ہاں زنا بذاتِ خود کوئی جرم نہیں بلکہ محض ازدواجی حقوق میں مداخلت کی بنا پر اسے جرم سمجھا جاتاہے۔ اسی بنا پر آج بھی یورپ میں زنا کاری اور فحاشی کا بازار گرم ہے اور یہ چیز مغربی معاشرے میں کوئی معیوب امر نہیں ۔ مغربی ممالک کے ایک حالیہ سروے کے مطابق وہاں بسنے والے مرداوسطاً اپنی زندگی میں ۶ء۱۴ عورتوں سے جبکہ عورت اوسطاً ۵ء۱۱ مردوں سے جنسی تعلق قائم کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب زنا کاری ہی ہے اور رضامندی کی وجہ سے اس پر کوئی قانون حرکت میں نہیں آتا۔ مغرب میں نکاح کی حیثیت وقتی رضامندی کو حاصل ہے جو اگر نکاح کے بعد بھی حاصل نہ ہو تو عورت اپنے شوہر کے خلاف ازدواجی زنا بالجبر کا مقدمہ دائر کرسکتی ہے۔ زنا بالرضا کو حدود آرڈیننس سے نکال کرجس تعزیراتِ پاکستان میں دوبارہ لایا جارہا ہے،اس کو بھی ایک نظر ملاحظہ فرما لیں : تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ ۴۹۷ میں زنا کی تعریف یہ ہے : ’’جو کوئی کسی عورت کے ساتھ مباشرت کرتا ہے، جس کے بارے میں وہ جانتا ہے یا یقین رکھتا ہے کہ وہ کسی اور کی بیوی ہے اور اس شخص کی اجازت یا اس کی ملی بھگت کے بغیراس فعل کا ارتکاب کرتا ہے نیز اس کا یہ فعل زنا بالجبر کے زمرے میں بھی نہیں آتا تو کہا جائے گا کہ اس نے زنا کے جرم کا ارتکاب کیا ہے اور اسے ۵ سال تک قید یا جرمانہ یا دونوں کی سزا سنائی جائے گی۔ اس مقدمہ میں بیوی کو بطورِ ترغیب دینے والی کے کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔‘‘