کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 12
جائیں اور ایک سال کے لئے جلاوطن کردیا جائے۔‘‘
اگر کنوارہ زنا بالجبر کرے تو شریعت کی رو سے تب بھی اس کو قتل نہیں کیا جائے گا، لیکن حرابہ کے تحت لے آنے کی صورت میں کنوارے کو بھی قتل کرنا پڑے گا جو خلافِ اسلام ہے۔
2. حرابہ کے تحت ہونے والے جرائم آیت ِحرابہ سے اگلی آیت کی رو سے گرفتاری سے قبل قابل توبہ (معافی) ہیں ۔ جن لوگوں نے زنا بالجبر کی سزا کو حرابہ کے تحت قرار دیا ہے، وہ بھی اس بنا پر اس کو قابل معافی قرار دیتے ہیں ۔ ڈاکٹر محمد فاروق خاں لکھتے ہیں کہ
’’زنا بالجبر دراصل پوری سوسائٹی کے خلاف ایک جرم ہے، آیت ِحرابہ سے ہدایت ملتی ہے کہ
٭ ایسے مجرموں کے لئے حکومت کسی موقعہ پر عام معافی کا اعلان بھی کرسکتی ہے۔
٭ اگر حکومت کے ہاتھ لگنے سے قبل کوئی مجرم خود ہی پچھلے جرائم سے تائب ہونے کا اعلان کردے تو حکومت اس کو معاف کرسکتی ہے۔ ‘‘
(’حدود، حدود آرڈیننس اور خواتین‘: ص ۲۵)
گویا ایک طرف زنا بالجبر کو سوسائٹی کے خلاف جرم قرار دے کر سزا کی سنگینی کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور دوسری طرف زنا مان کر اس کے لئے معافی کی گنجائش بھی نکال لی جاتی ہے۔ یہ دوہری منطق ناقابل فہم ہے۔ اس لئے کہ کسی جرم کا حد ود اللہ میں آجانا اس کی سنگینی میں اضافہ کرتا ہے نہ کہ کمی کیونکہ حدود اللہ میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکتی اور نہ ہی قاضی کے پاس آنے کے بعد ان کی معافی ہوسکتی ہے۔ یہی بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو بھی اس وقت فرمائی تھی جب وہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے ذریعے ایک مخزومی عورت کی چوری کی سزا کم کرنے کی سفارش آپ کے پاس لے کر آئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں ڈانٹا :
(( أتشفع في حد من حدود ﷲ ثم قام فخطب: … لو أن فاطمۃ بنت محمد سرقت لقطع محمد یدہا))
(صحیح بخاری: کتاب الحدود ، باب کراہیۃ الشفاعۃ في الحد، رقم ۶۷۸۸)
’’کیا تم حدود اللہ میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کرتے ہو۔ پھر آپ کھڑے ہوگئے اورخطبہ ارشاد فرمایا کہ اگر فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت ِمحمد بھی چوری کرتی تو محمد اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتے۔‘‘
اس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت تو درکنار، دربارِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ان کی سزا کے بارے میں کوئی نرمی نہیں کی جاسکتی، کجا یہ کہ اُنہیں سرے سے ہی معاف کردیا جائے۔