کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 11
عورت نماز پڑھنے کے لئے گھر سے نکلی تو ایک شخص نے اس سے زنا بالجبرکرلیا۔شور مچانے پر وہ شخص بھاگ نکلاکہ اسی دوران ایک آدمی گزرا تو عورت نے اسے یہ شکایت کی، پھر مہاجرین کی ایک جماعت کا وہاں سے گزر ہوا تو اس عورت نے انہیں بھی شکایت لگائی۔وہ صحابہ رضی اللہ عنہم چلے گئے اور کچھ دیر بعد ایک آدمی کو پکڑ لائے جس کے بارے میں عورت کا یہ گمان تھا۔اسے عورت کے سامنے لایا گیا تو اس نے کہا کہ یہی ہے وہ شخص۔سو وہ اس شخص کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے، آپ نے جب اس کو سزا دینے کا حکم دیا تو ایک اور شخص کھڑا ہوگیا اور اس نے کہا کہ اس عورت سے میں نے زنا کیا ہے ۔تب آپ نے اس عورت کو جانے کی اجازت دی کہ جا تجھے اللہ نے معاف کردیا ہے اور اس شخص کے لئے اچھے کلمات بولے۔(کسی نے)کہا کہ اس کو رجم کردو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ا س نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اہل مدینہ بھی ایسی توبہ کریں تو ان سے بھی قبو ل کی جائے۔‘‘ (سنن ابو داود: ۴۳۷۹ واللفظ لہ، سنن ترمذی: ۱۴۵۴)
لیکن اس واقعہ سے یہ کب ثابت ہوتا ہے کہ وہ شخص کنوارا تھا؟ ظاہر ہے کہ وہ شخص شادی شدہ ہوگا اور اسی لئے اس کو رجم کا حکم دیا گیا ہوگا۔اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ زنا بالجبر کی سزا حرابہ (ڈاکہ اور فساد فی الارض) کی بجائے رجم کی ہی ہے۔ (تفصیلات آگے صفحہ نمبر ۲۶پر)
کیا زنا بالجبر کی سزا ’حرابہ‘ کی ہے؟
زنا بالجبر کی سزا موت قرار دینے کے لئے بعض تجدد پسند دانشور اسے حرابہ (ڈاکہ اور فساد فی الارض) کے تحت لاتے ہیں ۔ لیکن ان کا موقف درست نہیں جیسا کہ گذشتہ احادیث میں زنا بالجبر پرکنوارے کے لئے کوڑے اور شادی شدہ کے لئے رجم کی سزا کا ذکر ہوا ہے۔
1. یہ موقف خلافِ قرآن ہے کیونکہ کنوارے کے لئے قرآنِ کریم نے سورۃ النور کی دوسری آیت میں ۱۰۰ کوڑے کی سزا مقرر کی ہے۔ قرآنی سزا کنوارے کے لئے ہے جس کا قرینہ یہ ہے کہ اگلی آیت میں ’’زانی کا نکاح یا تو زانیہ سے ہے یا مشرکہ سے‘‘ کا تذکرہ موجود ہے۔ ایسے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح فرمان ہے : أنہ أمر فیمن زنیٰ ولم یحصن بجلد مائۃ وتغریب عام (صحیح بخاری: ۲۶۴۹)
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر شادی شدہ زانی کے بارے میں یہ حکم دیا کہ ا س کو ۱۰۰ کوڑے مارے