کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 10
مُجوزہ ترمیم:اب ہم مجوزہ ترمیم کی طرف نظر کرتے ہیں تو پتہ چلتاہے کہ یہاں اسی زنا بالرضا اور زنا بالجبر میں فرق کو اساسی حیثیت دی جارہی ہے۔ اور زنا بالجبر کی صورت میں سزاے موت کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ یہ سزا خلافِ اسلام ہے کیونکہ اسلام نے کنوارے زانی کے لئے چاہے وہ زنا بالجبر کا مرتکب بھی ہو، سزاے موت نہیں رکھی۔ صحیح بخاری میں یہ عنوان قائم کیا گیا ہے کہ ’’مجبور عورت پر کوئی حد نہیں !‘‘ اس کے تحت یہ حدیث ہے : أن عبدًا من رقیق الإمارۃ وقع علی ولیدۃ من الخُمس فاستکرہہا حتی افتضہا فجلدہ عمر الحد ونفاہ ولم یجلد الولیدۃ من أجل أنہ استکرہہا ’’خلیفہ کے غلاموں میں سے ایک نے مالِ خمس(بیت المال)کی ایک کنیز کو اس قدر مجبور کیا کہ اس سے زنا بالجبر کر لیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس غلام پر کوڑوں کی حد نافذ کی اور اس کو جلا وطن کردیا، جبکہ کنیز کو کوڑوں کی سزا نہ دی کیونکہ اس کو مجبور کیا گیا تھا۔‘‘ (صحیح بخاری، موطا امام مالک:کتاب الحدود، رقم۱۵، مصنف عبدالرزاق: ۱۳۴۶۸) موطا کی روایت میں ہے کہ یہ شخص خمس کے غلاموں پر نگران تھا، اسلئے اس نے مجبور کرلیا۔ ٭ ایسے ہی ایک شخص نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ صدیق کویہ شکایت کی کہ ا س کے مہمان نے اس کی بہن سے زنا بالجبر کا ارتکاب کیا ہے۔ آپ نے ا س سے تفتیش کی تو اس نے اعتراف کرلیا، فضرب بہ أبوبکر الحد ونفاہ سنۃ إلی فدک ولم یضربہا ولم ینفہا لإنہ استکرہہا ثم زوجہا إیاہ أبوبکر وأدخلہ علیہا (موطا امام مالک:کتاب الحدود،رقم۱۳، مصنف عبد الرزاق: ۱۲۷۹۶) ’’حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس پر حد جاری کی اور ’فدک‘ میں اس کو جلاوطن کردیا، جبکہ عورت کو نہ تو کوڑے مارے اور نہ ہی اسے جلاوطن کیا کیونکہ اس نے عورت کو مجبور کیا تھا۔ بعد ازاں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسی شخص سے عورت کا نکاح کردیا اور اُسکی اِس عورت سے شادی کردی۔‘‘ اس واقعہ میں بھی زنا بالجبر ہوا لیکن اس کو سزاے موت دینے کی بجائے کوڑے اور جلاوطنی کی سزا دی گئی۔یہ شخص جلاوطنی کاٹ کر واپس آیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے اس کو اسی عورت سے شادی کرنے کا حکم دیا۔ (یہ واقعات صحیح ہیں ، دیکھیں أقضیۃ الخلفاء الراشدین: ۲/۸۴۰ ) ٭ زنا بالجبر کی سزا موت قرار دینے کے لئے دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ واقعہ پیش کیا جاتا ہے کہ ’’ایک