کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 99
پرویز صاحب) نے کسی اختلافی رائے کوظاہرنہیں کیا۔‘‘ تو یہ بات غلط ہے کیونکہ مضمون کے آخر میں ’استدراک‘ کے زیرعنوان، بایں الفاظ یہ اختلافی نوٹ موجود ہے : ’’اس مقالہ میں جس قدر حصہ تاریخ سے متعلق ہے، ظاہر ہے کہ اسے یقینی نہیں کہا جاسکتا۔ اس لئے اسے احتیاط سے قبول کرنا چاہئے۔ یہ احتیاط، اس وقت اور بھی ضروری ہوجاتی ہے جب معاملہ صحابہ کبار کے متعلق ہو۔اس سلسلہ میں ہم طلوعِ اسلام میں بڑی تفصیل سے لکھ چکے ہیں ۔ اور وہ مباحث اب ’قرآنی فیصلے‘ (جلد دوم) میں درج ہوگئے ہیں ، جنہیں اس موضوع کی تفصیلات سے دلچسپی ہو، وہ اسے وہاں دیکھ سکتے ہیں ۔‘‘[1] اس اقتباس میں ، ہر شخص خود یکھ سکتا ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے کاتب وحی ہونے یانہ ہونے کے متعلق ایک حرف بھی موجود نہیں ہے۔ صرف یہ’وعظ‘ موجود ہے کہ تاریخ سے متعلقہ حصہ غیر یقینی ہے، اس لئے اسے احتیاط سے قبول کرنا چاہئے۔ یہ احتیاط اُس وقت اور بھی ضروری ہوجاتی ہے جب معاملہ کبار صحابہ کے متعلق ہو۔ لیکن مقالہ نگار صاحب محض میری مخالفت میں ، اسے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے کاتب ِوحی ہونے یانہ ہونے کے بارے میں ’اختلافی رائے‘ قرار دیتے ہیں اور پھر اس فاسدپر ایک اورفاسد کا یہ کہہ کر اضافہ فرماتے ہیں کہ ’’ملاحظہ فرمایا آپ نے، پروفیسر موصوف کا دعویٰ تھاکہ طلوعِ اسلام یا پرویز صاحب نے کوئی اختلافی نوٹ نہیں لکھا، اس لئے اسے پرویز صاحب سے منسوب کیاگیا ہے۔ آپ ذرا اس دریافت کو ملاحظہ فرمائیے۔ مستشرقین کی کتابیں بھی اسلام پر تنقید سے مملو ہوتی ہیں ، مگر آج تک کسی مستشرق نے بھی اس قسم کی علمی خیانت کا مظاہرہ نہیں کیا جس کا اظہار پروفیسر موصوف نے کیا ہے۔‘‘[2] استدراک کے زیرعنوان، طلوع اسلام نومبر۱۹۶۴ء صفحہ۵۷ پر موجود عبارت کو(جوقطعی طور پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے کاتب ِوحی ہونے یانہ ہونے سے غیر متعلق ہے) محض سینہ زوری سے ’اختلافی رائے‘ قرار دے کر مقالہ نگار کا ’اُلٹا چور کوتوال کوڈانٹے‘ کامصداق بننا، واقعی قابل داد ہے۔ مستشرقین نے ایسی’علمی خیانت‘ کا مظاہرہ کیا ہے یانہیں لیکن مقالہ نگار نے اصل مسئلہ