کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 98
زیر اعتراض دوسرا تضاد حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی ذات کے بارے میں ہے۔ ایک مقام پر ان کی تاریخی شخصیت کی نفی کی گئی ہے اور اُنہیں ایک فرضی اور من گھڑت شخصیت قرار دیا گیا ہے، جبکہ دوسرے مقام پر ان کی شخصیت ہی کا نہیں ، بلکہ صحابیت کا بھی اثبات کیاگیا ہے۔ میں نے ان دونوں مثالوں کے بارے میں اپنی کتاب (زیربحث) میں یہ وضاحت بھی کردی تھی کہ ’’تیسری اور چوتھی مثال میں ، جو تحریری ثبوت پیش کئے گئے ہیں ، وہ اگرچہ پرویز صاحب کے الفاظ میں نہیں ہیں ، لیکن ان کے متعلق، طلوعِ اسلام (یا خود پرویز صاحب)نے کسی اختلافی نوٹ کو ظاہرنہیں کیا۔ اس لئے اُنہیں پرویز صاحب ہی کی طرف منسوب کیا گیا ہے کیونکہ اُنہیں کا یہ اصول ہے کہ کسی چیز کو بلااختلافی نوٹ کے شائع کرنا دلیل موافقت قرار پاتا ہے۔[1] تضاداتِ پرویز کی ان دونوں مثالوں پر، مقالہ نگار نے دو اعتراضات پیش فرمائے ہیں : پہلااعتراض طلوعِ اسلام کے جس اقتباس میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو تاریخی اعتبار سے ایک وضعی شخصیت قرار دیا گیا ہے، اس کا حوالہ ’طلوعِ اسلام‘ نومبر۱۹۴۹ء صفحہ ۴۹ دیاگیا ہے، جبکہ اس مقام پر ایساکوئی اقتباس موجود نہیں ہے۔ چنانچہ مقالہ نگارنے اپنے تنقیدی مضمون کے آخر میں محولہ بالا صفحہ کا عکس بھی پیش کیا ہے۔ یہ اعتراض بالکل بجا ہے۔کیونکہ کتاب میں ،احتیاط کے باوجود حوالہ غلط درج ہوگیا ہے۔ جس کا مجھے افسوس ہے۔بہرحال یہ اقتباس فی الواقعہ طلوعِ اسلام ۱۹۵۴ء کے شمارہ میں صفحہ ۴۹ پرموجود ہے جس کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔میں مقالہ نگار کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے اس لغزش کی نشاندہی کی۔ دوسرا اعتراض دوسرا زیر اعتراض اقتباس وہ ہے جس میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے کاتب ِوحی ہونے کی نفی کی گئی ہے۔معترض کا اعتراض یہ ہے کہ مصنف کتاب نے جو یہ کہاہے کہ…’ ’طلوعِ اسلام (یا